سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 22 جون کو ترکی کا دورہ کریں گے، ترک حکام
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 22 جون کو ترکی کا دورہ کریں گے، انقرہ اور ریاض 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو بھلا کر تعلقات آگے بڑھا رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد کے دورہ ترکی سے متعلق بات سینئر ترک عہدیدار نے جمعہ کے روز اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔
واضح رہے کہ استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے وحشیانہ قتل کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ترکی کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی میں سعودی سفارتخانے سے صحافی کی گمشدگی پر احتجاج
ترک عہدیدار نے مزید بتایا کہ دورے کی تفصیلات کا اعلان ہفتے کے آخر میں کیا جائے گا، دورے کے دوران دونوں ممالک کئی معاہدوں پر دستخط کریں گے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ ولی عہد کا دورہ دارالحکومت انقرہ میں ہونے کی امید ہے لیکن یہ ابھی حتمی نہیں، دورے کے مقام کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کردیا
ترک صدر رجب طیب اردوان اس سے قبل اپریل کے آخر میں سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں جہاں انہوں نے مکہ جانے سے قبل سعودی ولی عہد سے ملاقات کی تھی۔
سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ایس پی اے' نے اس وقت رپورٹ کیا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے ترک ۔ سعودیہ تعلقات اور انہیں تمام شعبوں میں ترقی دینے کے طریقوں کا جائزہ لیا۔
یاد رہے کہ سعودی ایجنٹوں نے اکتوبر 2018 میں سلطنت کے استنبول کے قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کو قتل کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے کر دیے تھے۔
جمال خاشقجی سعودی عرب کے اندرونی معاملات سے باخبر صحافی تھے جو بعد میں سلطنت کی پالیسیوں کے نقاد بن گئے تھے، مقتول صحافی کے جسم کی باقیات اب تک نہیں ملیں۔
رجب طیب اردوان نے پہلے کہا تھا کہ سعودی حکومت کی 'اعلیٰ ترین قیادت' نے صحافی کے قتل کا حکم دیا تھا۔
ترکی نے اس قتل کیس کی بھرپور طریقے سے پیروی کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا اور عالمی میڈیا کو قتل کی چشم کشا لرزہ خیز تفصیلات سے آگاہ کر کے سعودی حکمرانوں کو ناراض کیا۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس:سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزم گرفتار
ترکی کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اس واقعے سے قبل ہی کشیدہ ہوگئے تھے جبکہ ترکی نے خلیجی ریاست پر ریاض کے زیر قیادت بائیکاٹ کے دوران قطر کی حمایت کی تھی، لیکن جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تین سال تک تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔
سعودی عرب نے اس وقت ترکی کی معیشت پر دباؤ ڈالتے ہوئے ترکی کی درآمدات کا غیر سرکاری بائیکاٹ کیا تھا۔
اب جب کہ ترکی کے صدارتی انتخاب میں ایک سال کا وقت رہ گیا ہے، اس لیے مہنگائی اور زندگی گزارنے کے لیے درکار بنیادی اشیا کی قیمتوں کے بحران کے دوران رجب طیب اردوان، خلیجی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔