افغانستان: خواتین پر ’منظم جبر‘ پر اقوام متحدہ کی طالبان پر تنقید
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں پر طالبان کی جانب سے ’منظم ادارہ جاتی جبر‘ پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ انہیں تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مشیل بیچلیٹ نے جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال اگست میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغان شہری اپنے دور کے تاریک ترین لمحات کا سامنا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کا خواتین کو عوامی مقامات پر برقع پہننے کا حکم
انہوں نے خاص طور پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ’جنسی تفریق‘ کی مذمت کی، باوجود ان وعدوں کے کہ وہ 1996 سے 2001 تک اقتدار کے پہلے دور کے برعکس اسلامی حکمرانی کے آسان نظام کو اپنائیں گے، لیکن طالبان نے اس کے باوجود بھی بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ہزاروں لڑکیوں کو سیکنڈری تعلیم تک رسائی سے روک دیا گیا ہے، جبکہ خواتین کو بھی متعدد سرکاری ملازمتوں میں واپس آنے سے روک دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں دو دہائیوں بعد دوبارہ شوبز میں خواتین کو دکھانے پر پابندی
طالبان حکام کی جانب سے خواتین پر تنہا سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے اور وہ صرف مردوں سے الگ دیگر دنوں میں کابل کے عوامی باغات اور پارکوں میں تفریح کے لیے جاسکتی ہیں۔
گزشتہ مہینے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کہا تھا کہ خواتین کو عمومی طور پر گھروں میں رہنا چاہیے، خواتین کو حکم دیا گیا تھا کہ اگر انہیں باہر جانا ہے تو وہ چہرے سمیت خود کو مکمل طور پر پردے سے ڈھانپ لیں۔
مشیل بیچلیٹ نے مارچ میں افغانستان کا دورہ کرنے کے بعد ’ناقابل تصور چیلنجز‘ کے باوجود اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین سے کی جانے والی ملاقات کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حالت تشویشناک ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کردی
اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ ’میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ آج ہم افغانستان میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ خواتین کے ساتھ منظم ادارہ جاتی ظلم ہے’۔
انہوں نے خواتین کی نقل و حمل کی آزادی پر عائد سخت پابندیوں پر کہا کہ ’ان سے خواتین کی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن میں خواتین اور ان کے بچوں کو صحت کی خدمات، معاشی اور انسانی امداد تک رسائی شامل ہے‘۔