سندھ میں یکم جون سے کم از کم اجرت 25 ہزار روپے مقرر
سندھ کے وزیر صنعت و تجارت جام اکرام اللہ دھاریجو نے اعلان کیا ہے کہ صوبائی حکومت نے کم از کم اجرات 25 ہزار روپے مقرر کردی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ اسمبلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت عام آدمی کو درپیش مسئلے سے باخبر ہے اور تمام آجر اور کارخانوں کے مالکان اپنے غیر ہند مند کارکنان کو یکم جون 2022 سے کم از کم 25 ہزار روپے ادا کرنے کے پابند ہیں۔
کم از کم اجرت کے تعین کے لیے ویج بورڈ سندھ کا اجلاس 8 جون کو ہوا تھا جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں غیر ہنر مند ورکر کی کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ ہوگی جس کا اطلاق یکم جون 2022 سے ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: حکومت سندھ کا کم از کم اجرت 25 ہزار کرنے کا نوٹیفکیشن معطل
ویج بورڈ کے تمام اراکین نے چیئرمین کی پیش کردہ تجویز سے اتفاق کیا۔
بعدازاں 9 جون کو حکومت سندھ نے اس ضمن میں ایک گزیڈٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا جس کے تحت سندھ میں تجارتی، صنعتی اداروں میں غیر ہنر مند بالغ اور نابالغ ورکرز کی تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ کم از کم 25 ہزار روپے کی اجرت کا اطلاق یکم اپریل 2022 سے ہوگا۔
علاوہ ازیں حکومتِ پنجاب نے 22 اپریل کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس کے مطابق نئی اجرت یکم اپریل سے قابل عمل ہوگی۔
سندھ کم از کم اجرت بورڈ کے چیئرمین اصغر علی گھانگھرو نے 8 جون کے اجلاس میں آجروں اور ورکرز کے نمائندوں سے کم از کم اجرت کے اطلاق کے لیے یکم جولائی یا یکم اپریل پر اتفاق رائے کرنے کا کہا تھا۔
مزید پڑھیں: سندھ کا بجٹ پیش، تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ، کم سے کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے تجویز
آجروں کی نمائندگی کرنے والے ایک رکن خلیل احمد بلوچ نے کہا تھا کہ 6 ہزار روپے کا اضافہ بہت زیادہ ہے جس کے نتیجے میں متعدد صنعتیں بند ہوجائیں گی اور مزدوروں کو نقصان پہنچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کم از کم اجرت بڑھا کر 25 ہزار روپے کررہے ہیں کیوں کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے‘۔
آجروں کے نمائندے جنید مکدہ نے کہا کہ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے لہٰذا بورڈ کی متفقہ منظوری کے بعد کم از کم اجرت بڑھانا ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا نے یکم جولائی سے زائد اجرت کا اطلاق کیا ہے اور اگر سندھ بھی ایسا کرے تو منصفانہ ہوگا۔
ورکرز کی نمائندگی کرنے والے محبوب علی قریشی نے کہا کہ 1970 میں سرکاری اور نجی اداروں کے مزدوروں کی تنخواہ برابر تھی لیکن اب سرکاری ملازمین کی تنخواہ نجی اداروں کے ملازمین سے زیادہ ہے، اس فرق سے ورکرز میں اضطراب پیدا ہوتا ہے۔