سپریم کورٹ: ای سی ایل میں شامل افراد کا بیرون ملک سفر، وزارت داخلہ کی اجازت سے مشروط
سپریم کورٹ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل افراد کو بیرون ملک سفر کرنے کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اٹارنی جنرل آفس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوا اور ای سی ایل رولز سے متعلق کابینہ کمیٹی کا گزشتہ روز اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ کے تمام سوالات اور مشاہدات کو سامنے رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کو ایک ہفتے میں ای سی ایل قوانین میں تبدیلیاں قانونی دائرہ کار میں لانے کی ہدایت
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے منٹس کہاں ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ کمیٹی کا اجلاس کل ہوا ہے، اس کے منٹس ایک دو روز میں مل جائیں گے، کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا کہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اٹارنی جنرل آفس نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے متعلق ایس او پیز بنا کر تمام اداروں کو بھجوا دی ہیں، ای سی ایل سے نکالے گئے تمام ناموں کو الگ الگ کر کے دوبارہ سے جائزہ لیا جائے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ جو ترمیم ہوچکی ہے یا جو نام ای سی ایل سے نکل گئے ان کا کیا ہوگا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نیب اور ایف آئی اے سے مشاورت کے بعد رولز بنائے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: ازخود نوٹس کیس: ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ خود فائدہ اٹھانے والے ہیں وہ رولز میں ترمیم کیسے کر سکتے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے ای سی ایل میں شامل افراد کو بیرون ملک سفر کرنے کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینے کا حکم دے دیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ بیرون ملک جانے سے پہلے متعلقہ شخص وزارت داخلہ سے اجازت لے گا اور جب تک حکومت قانون سازی نہیں کر لیتی یہ عبوری طریقہ کار رائج رہے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں، یہ سوال اہم ہے کہ مقتدر لوگوں نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے فائدہ اٹھایا، جن لوگوں کے مقدمات زیر التوا ہیں ان کے لیے مروجہ طریقہ کار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ موجودہ حالات منفرد نوعیت کے ہیں، پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت پارلیمنٹ سے باہر جاچکی ہے، ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے، ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات آئین و قانون کی روشنی میں استعمال کرنا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ازخود نوٹس کیس: ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ای سی ایل رولز کے حوالے سے کابینہ نے منظوری دی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی میں معاملہ زیر غور ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے، سسٹم چلنے دینے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے، نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے، ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں، جن لوگوں کے مقدمات زیر التوا ہیں ان کے لیے مروجہ طریقہ کار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کرنا کیا چاہتی ہے، لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے، واضح بات کے بجائے ہمیشہ ادھر ادھر کی سنائی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا حکومتی شخصیات کے کیسز میں 'مداخلت کے تاثر' پر از خودنوٹس
عدالت نے استفسار کیا کہ ای سی ایل کے حوالے سے کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں، ایسی کیا جلدی تھی کہ دو دن میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری دی گئی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے، ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بااختیار افراد نے ترمیم کر کے اس سے فائدہ اٹھایا، کسی کو لگتا ہے کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔
انہوں نے وزیراعظم کی ضمانت حاصل کرنے کے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی، ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لیں گے، کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی تحقیقاتی ادارے، ایجنسی اور ریاستی عضو کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کردی
ان کا کہنا تھا کہ قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں، سوال اہم ہے کہ مقتدر لوگوں نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے فائدہ اٹھایا، جو لوگ خود مستفید ہوئے ہیں وہ رولز میں ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟
دریں اثنا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کروادیا گیا۔
سربمہر لفافوں میں تمام شواہد اور ریکارڈ پر مبنی ڈیجیٹل ریکارڈ یو ایس بی میں جمع کروایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت ایف آئی اے کے 14 ہائی پروفائل ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اعجاز ہارون نام ای سی ایل سے نکلنے کے بعد بیرون ملک گئے لیکن اب تک واپس نہیں آئے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے منٹس طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 27 جون تک ملتوی کردی۔
پس منظر
خیال رہے کہ 18 مئی کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی شخصیات کی جانب سے زیر التوا مقدمات کی تحقیقات میں مداخلت پر اثر انداز ہونے کے تاثر پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘موجودہ حکومت میں موجود افراد سے متعلق زیر التوا کرمنل معاملات کی پراسیکیوشن اور تفتیش کے لیے پراسیکیوشن برانچ کے اختیارات اور فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کا خدشہ ہے’۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘خدشہ ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے مقدمات کی تفتیش، عدالتوں میں شہادتوں میں ردوبدل یا غائب کرنے یا تفتیشی اداروں کے قبضے میں اور اہم عہدوں پر تبادلے اور تعیناتیوں میں اثر انداز ہو سکتے ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف پر فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر
ازخود نوٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ‘احتساب کے قوانین میں تبدیلی کی اس طرح کی کارروائیوں، میڈیا رپورٹس کے ساتھ ملک میں نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے’۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جو معاشرے پر بطور مجموعی اثر انداز ہو رہا ہے اور ملک میں عوام کا قانون اور آئین کی بالادستی پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے’۔
19 مئی کو عدالت عظمیٰ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کردی تھی اور قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا تھا۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف پر فرد جرم عائد نہ کی جاسکی
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن زیر التوا مجرمانہ معاملات کا حوالہ دے رہی ہے، تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی پیروی کر رہی ہے جن پر فرد جرم فروری سے تاخیر کا شکار ہے۔
یہ نوٹس ایسے وقت میں سامنے آیا جب پی ٹی آئی کی جانب سے یہ الزامات عائد کیے جارہے تھے کہ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد موجودہ مخلوط حکومت مبینہ طور پر کرپشن کے الزامات سے متعلق مختلف مقدمات پر اثر انداز ہونے لگی اور تفتیش کاروں یا مقدمات کی نگرانی کرنے والے افسران کے تبادلے شروع کر دیے۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے گزشتہ ماہ نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 منظور کیا تھا جس میں نیب کے بیشتر اختیارات کو ختم کیا گیا تھا۔
قبل ازیں 3 جون کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے قوانین میں حالیہ تبدیلیوں کو ایک ہفتے کے اندر قانون کے دائرے میں لانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ہدایت پر عمل نہ کیے جانے کی صورت میں حکم جاری کیا جائے گا۔