پاکستان

شوکت صدیقی برطرفی کیس: '14 سماعتیں ہوچکی ہیں، چاہتے ہیں یہ کیس جلد ختم ہو'

بینچ میں شامل دو ججز جولائی اور اگست میں ریٹائر ہو رہے ہیں، ججز کی ریٹائرمنٹ سے قبل کیس ختم کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس
|

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کےخلاف کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ کیس جلد ختم ہو، کیوں کہ بینچ میں شامل 2 ججز ریٹائر ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے سابق جج کی جانب سے اپنی برطرفی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے دلائل دیے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے؟ جسٹس اعجازالاحسن

چیف جسٖٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں یہ کیس جلد ختم ہو، 14 سماعتیں ہوچکی ہیں، حامد خان صاحب جلد دلائل مکمل کریں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ بینچ میں شامل دو ججز جولائی اور اگست میں ریٹائر ہو رہے ہیں، ججز کی ریٹائرمنٹ سے قبل کیس ختم کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زیر التوا مقدمات کے بوجھ کے باعث لارجر بینچ مشکل سے بنتا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ کیس کی سماعت دوپہر 12 بجے شروع ہو تو دلائل کے لیے زیادہ وقت مل جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تو 24 گھنٹے سپریم کورٹ میں بیٹھنے کے لیے حاضر ہیں، آپ رات 9 بجے بھی کہیں تو سپریم کورٹ میں کیس سننے کے لیے تیار ہیں۔

مزید پڑھیں: شوکت عزیز صدیقی کی سپریم کورٹ سے اپنے کیس کی سماعت بحال کرنے کی استدعا

عدالت نے حامد خان کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے کہا کہ کل اٹارنی جنرل کے دلائل سن لیں گے۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کو میڈیا کے ذریعے جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کا علم ہوا، نہیں معلوم کونسل رپورٹ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے ذریعے صدر کو بھیجی گئی یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کونسل نے رپورٹ کے لیے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی کے مؤقف پر انحصار کیا حالانکہ جوڈیشل کونسل کو دو الگ الگ مؤقف پر انکوائری کرانا چاہیے تھی۔

حامد خان نے کہا کہ میرے مؤکل کے خلاف گواہ بننے پر انور کاسی کے خلاف ریفرنس ڈراپ کردیا گیا اور شوکت عزیز صدیقی کےخلاف تین ریفرنسز کی کارروائی روک کر چوتھا ریفرنس چلایا گیا۔

چیف جسٹس نے حامد خان کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ اپنی گزارشات بتائیں، مقدمے کے حقائق ریکارڈ پر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو دے دیں’، شوکت صدیقی کا سپریم کورٹ میں سخت مؤقف

حامد خان کا کہنا تھا کہ ریفرنس کے الزامات پر انکوائری ضروری تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی رپورٹ کے خلاف آئینی درخواست قابل سماعت ہے۔

حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے مؤکل کو سنا ہی نہیں گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے یہ سارے دلائل نوٹ کر لیے ہیں، کیس کی سماعت کل مکمل کریں گے، اٹارنی جنرل نے بیرون ملک جانا ہے ان کو بھی سننا چاہیں گے۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ کل ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔

اپنے خطاب کے دوران بغیر کسی کا نام لیے انہوں نے الزام لگایا کہ ’مجھے پتا ہے سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا احتساب عدالت پر ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

اس کے بعد 22 جولائی کو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متنازع بیان کا نوٹس لے لیا تھا۔

چیف جسٹس نے واضح کیا تھا کہ ’پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں‘، تاہم انہوں نے معاملے کا جائزہ لینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

22 جولائی کو ہی پاک فوج نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ریاستی ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

جس کے بعد یکم اگست 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

بعدازاں سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اداروں کے خلاف متنازع تقریر کے معاملے پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

مزید پڑھیں: ریاستی اداروں پر الزامات: جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز نوٹس جاری

ایس جے سی کی سفارش پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 11 اکتوبر 2018 کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو متنازع تقریر کے معاملے پر ان کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔

جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے نومبر 2020 کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

بظاہر یہ ان کا تیسرا ایسا خط تھا جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا تھا۔

لانگ مارچ کے دوران توڑ پھوڑ کے مقدمات: پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانت میں توسیع

اگر تائیوان آزادی کی طرف بڑھا تو آخری حد تک لڑیں گے، چینی وزیر دفاع

بجلی کی قیمت میں 3 روپے 99 پیسے اضافے کی منظوری