پاکستان

کراچی: بلوچ طلبہ کے لاپتا ہونے کے خلاف سندھ اسمبلی کے باہر مظاہرہ

2 طالب علم ڈوڈا بلوچ اور غمشاد بلوچ کو 7 جون کو گلشن اقبال میں مسکن چورنگی کے قریب ان کے گھر سے اٹھایا گیا، مظاہرین

جامعہ کراچی (کے یو) کے 2 بلوچ طلبہ کی مبینہ جبری گمشدگی خلاف سندھ اسمبلی کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

لواحقین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے گزشتہ 2 روز سے کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے باہر احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا اور انہوں نے اتوار کی شام پریس کلب سے صوبائی اسمبلی تک ریلی نکالی۔

خواتین اور بچوں سمیت متعدد مظاہرین نے آرٹس کونسل چورنگی پر پولیس کی جانب سے کھڑی کی گئی عارضی رکاوٹیں ہٹا دیں اور اسمبلی کے مین گیٹ کے باہر دھرنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی یونیورسٹی خودکش دھماکے کے سلسلے میں گرفتار بلوچ طالب علم رہا

ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا نے ڈان کو بتایا کہ آمنہ بلوچ، سیمی دین محمد بلوچ، عبدالوہاب بلوچ، ورسا پیرزادہ اور دیگر کی قیادت میں لگ بھگ 60 سے 70 مظاہرین نے کراچی پریس کلب سے مارچ شروع کیا۔

سینئر پولیس افسر نے کہا کہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ مظاہرین میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ حکام مظاہرین کے ساتھ مذکرات کر رہے ہیں تاکہ انہیں اسمبلی گیٹ کے باہر اپنا دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کیا جا سکے کیونکہ بجٹ اجلاس پیر کی شام کو ہونے کی توقع ہے۔

ایس ایس پی اسد رضا کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ کراچی یونی ورسٹی کے 2 بلوچ طلبا کو پولیس کا محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) مبینہ طور پر ساتھ لے گیا ہے، تاہم سی ٹی ڈی نے کسی طالب علم کو حراست میں لینے کی تردید کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچ احتجاج خطرے میں

جمع ہونے والے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے رشتہ داروں اور سماجی کارکنوں نے کہا کہ کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے 2 طالب علم ڈوڈا بلوچ اور غمشاد بلوچ کو 7 جون کو گلشن اقبال میں مسکان چورنگی کے قریب ان کے گھر سے اٹھا لیا گیا تھا اور اس کے بعد سے ان کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر دونوں طالب علم کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تھے تو انہیں وارنٹ گرفتاری دکھا کر گرفتار کیا جانا چاہیے تھا، اس کے بجائے انہیں رات کے وقت زبردستی ان کے گھروں سے لے جایا گیا جو ناقابل قبول ہے۔

مظاہرے کے مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچ کمیونٹی کے لوگوں کو انتظامیہ کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور سوال کیا کہ ان کا قصور کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لاپتا کیے گئے افراد کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف مقدمات درج ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہوں نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرے کیے لیکن حکام نے ان کے مطالبات پر عمل نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: جبری طور پر لاپتہ افراد کے نئے کیسز

انہوں نے سوال کیا کہ کراچی یونی ورسٹی کے 2 طالب علموں کو کس جرم میں حراست میں لیا گیا ہے، انہوں نے ان کے ساتھ ساتھ دیگر لاپتا افراد کی بازیابی کا بھی مطالبہ کیا۔

مقررین میں سے ایک سعیدہ زہری نے کہا کہ ان کے والد عبدالحمید زہری کو تقریباً 14 ماہ قبل بلوچستان سے پاپتا کیا گیا تھا اور ان کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں سے ملاقات کی تھی جنہوں نے انہیں بتایا تھا کہ ان کے والد بظاہر ایک اچھے انسان تھے اور ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔

اس نے کہا کہ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ ان کے والد کو کیوں لے جایا گیا جب وہ کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہیں تھے۔

دوسری، آمنہ بلوچ نے حالیہ احتجاج کا ذکر کیا جب کئی مظاہرین کو کراچی پریس سے حراست میں لیا گیا جب انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے اس وقت ایک غیر قانونی کارروائی کی تھی، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس آج بھی اسی رویے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کے یو کے لاپتہ طلبہاور دیگر کی رہائی تک اسمبلی گیٹ کے باہر دھرنا جاری رہے گا۔

اسرائیلی عدالتی فیصلے کے بعد فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے کے خطرات

تیسرے ون ڈے میں بھی فتح: پاکستان کا ویسٹ انڈیز کیخلاف کلین سوئپ

مشی خان مرحوم عامر لیاقت سے معافی مانگتے ہوئے اشکبار ہوگئیں