وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی 'خطے کے ترقیاتی بجٹ کو کم کرنے' پر وفاقی حکومت پر تنقید
گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت بننے والی اتحادی حکومت پر مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں جان بوجھ کر خطے کے ترقیاتی بجٹ کو کم کرکے تقریباً آدھا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام ایک ایجنڈے کے تحت خطے کو پستی کی جانب دھکیلنے کے لیے کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید اور علی امین گنڈا پور کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد خورشید خان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے خطے کے ترقیاتی بجٹ کو 50 فیصد تک کم کر کے 23 ارب روپے کر دیا ہے۔
خالد خورشید خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت میں ان کی حکومت کو 32 ارب روپے ری کرنٹ ہیڈ کے تحت دیے گئے تھے جب کہ اضافی گرانٹ کے طور پر اس میں مزید 15 ارب روپے بھی شامل کیے گئے تھے جس سے خطے کو ملنے والی مجموعی رقم 47 ارب روپے ہوگئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش، دفاعی بجٹ میں اضافہ، ماہانہ ایک لاکھ تک تنخواہ پر ٹیکس ختم
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت 47 ارب روپے سے تنخواہ اور دیگر اخراجات پورے کرنے کی پوزیشن میں تھی لیکن اس وقت ہمارے پاس قدرتی آفات سے متعلق امدادی کارروائیوں، انسانی صلاحیت کی تعمیر یا غربت کے خاتمے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی حکومت میں پہلی بار گلگت بلتستان کے لیے مختص رقم اربوں روپے تک پہنچ گئی جب کہ اس سے پہلے خطے کے لیے پی ایس ڈی پی پورٹ فولیو 2 ارب روپے تھا جسے عمران خان نے بڑھا کر 10 ارب روپے کر دیا تھا۔
خالد خورشید خان نے مزید کہا کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں ہمارا مقامی اے ڈی پی (سالانہ ترقیاتی پروگرام) 18 ارب روپے تھا اور پی ایس ڈی پی کی رقم بھی 18 ارب روپے تھی جو کل 36 ارب روپے بنتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے ایک ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا تھا جس میں پہلے مرحلے میں 18 ارب روپے رکھے گئے تھے اور ہمیں ملنے والی اوسط رقم 55 ارب روپے سالانہ ہونی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل
موجودہ حکومت کو سخت نتقید کا نشانہ بناتے ہوئے خالد خورشید نے کہا کہ حکومت نے 'جان بوجھ کر' بجٹ میں گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ میں 50 فیصد کمی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے خطے کے ترقیاتی بجٹ کو 2 ارب روپے تک بڑھایا تھا جو اس سے پہلے کروڑوں میں ہوا کرتا تھا۔
خالد خورشید خان کے مطابق جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے پہلی بار گلگت کے لیے 400 ارب روپے مختص کیے تھے تاکہ اس خطے کو سیاحوں کے لیے ہاٹ اسپاٹ اور سیاحتی مرکز بنایا جا سکے۔
انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس پیکج کو اب برباد کر دیا گیا ہے اور تقریباً 6 سے 7 اہم منصوبے جو کہ منصوبہ بندی کے اگلے مراحل میں تھے ان کو بھی روک دیا گیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ آخری بار عمران خان گلگت بلتستان کے عبوری آئینی حقوق کے لیے آگے بڑھے تھے اور ہم نے این ایف سی میں اپنے حصے کا حساب لگایا تھا جس کی رقم 137 ارب روپے بنتی تھی لیکن ایک صوبہ جسے 130 ارب روپے سے زیادہ ملنے چاہیے تھے، اب اس کو ملنے والے بجٹ میں سے بھی 50 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امیر طبقے کے غیر پیداواری اثاثوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعظم
انہوں نے کہا کہ گللت بلستان کو بھی بجلی کی شدید کمی کا سامنا ہے، حکومت اسکردو کو روزانہ کی بنیاد پر صرف 2 گھنٹے بجلی فراہم کر پا رہی ہے، ہمارے خطے کے علاوہ پورے ملک کو بجلی مل رہی ہے کیونکہ ہم نیشنل گرڈ کا حصہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان پورے ملک کی 70 فیصد پانی کی ضروریات پوری کر رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے 70 سالوں میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو 200 میگاواٹ پاور پروجیکٹ منصوبہ دیا تھا لیکن پھر ان کی حکومت گرادی گئی۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ خطے کی حساس حیثیت ہونے کے باوجود 2005 سے محکمہ پولیس میں ایک بھی بھرتی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس سے جی بی کو 4 لاکھ گندم کی بوریوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیاہے۔
انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یہ امپورٹڈ حکومت ماضی کے تمام ترقیاتی اقدامات کو ختم کرنے کے مشن پر ہے۔