بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے تباہ کن اثرات ہوں گے، ماہرین
ماہانہ بلوں میں شامل ہونے والے بجلی کے چارجز میں 46.77 فیصد کے حیران کن اضافے کے حوالے سے تمام شعبوں کے ماہرین، ماہرین اقتصادیات، ماہرین سماجیات اور سیاست دانوں کا اتفاق ہے کہ اس کا پاکستانیوں کی بڑی اکثریت پر تباہ کن اثر پڑے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے پہلے ہی موجودہ 16.91 روپے سے 24.82 روپے فی یونٹ کی بنیادی قیمت میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے اور حکومت نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ اس کے اطلاق کا نوٹی فکیشن جاری کرنے والی ہے۔
بجلی کے بلوں پر عام ٹیکس کی شرح تقریباً 22 فیصد ہے جس سے فی یونٹ لاگت میں مزید 5.46 روپے کا اضافہ ہو جائے گا، اس کے نتیجے میں گھریلو صارفین کے لیے یہ شرح 30.28 روپے فی یونٹ ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمت میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری
ماہر سماجیات پروفیسر محمد شبیر نے کہا کہ ’سماجی اور اقتصادی تباہی ہونے جارہی ہے، چند لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے مزید نیچے دھکیل دیے جائیں گے، متوسط طبقے میں کمی اور نچلے متوسط میں اضافہ ہوگا، جرائم کی شرح بڑھے گی اور سماجی انتشار مزید گہرا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے کہ حکومت کو بھی کوئی فائدہ نہ ہو کیونکہ بجلی کی چوری میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا جو کہ مطلوبہ اثرات کو بے اثر کردے گا، چوری کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی نمایاں اضافہ ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ اس قسم کے بوجھ جلد ہی بقا کے لیے چیلنج بن جائیں گے جس کا اکثریت مقابلہ نہیں کر سکتی، تیل اور گیس کی قیمتوں کے بھی اسی طرح کے دباؤ شامل ہوں گے اور سماجی افراتفری کا خدشہ ایک المناک صورت اختیار کرے گا۔
مزید پڑھیں: بجلی کی قیمت میں 2 روپے 86 پیسے فی یونٹ اضافہ
ایک شوروم اور اشیائے خورونوش کے کاروبار سے جڑے محمد رمضان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے کثیرالجہت اثرات ہوں گے اور اس کا پے در پے دباؤ ہوگا، دکاندار زیادہ بل ادا کریں گے اور زیادہ نرخ مانگیں گے، ہوٹل مالکان اب اضافی بلز ادا کریں گے اور انہیں کسٹمر چارجز میں شامل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ دباؤ کا سامنا کریں گے اور ان کے مسائل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر خبروں کی زینت بنیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک جس طرز حکمرانی کا سامنا کر رہا ہے اس کے پیش نظر کوئی بھی نہیں جان سکے گا کہ اس اضافے کا اصل اثر کیا ہے اور یہ بے بس صارفین پر کس حد تک منتقل کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کے نرخ میں 5 روپے 94 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری
ماہر معاشیات اور کالم نگار ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ ’اس اضافے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سے بچنا ممکن تھا، اگر یکے بعد دیگرے حکومتیں گزشتہ چند برسوں میں اپنے بل کی وصولی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتیں تو وہ نقصانات کو کم کر سکتی تھیں اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے لیے قرض دہندگان کے دباؤ سے بچ سکتی تھیں‘۔
انہوں نے کہا کہ وصولیاں بل میں طے کی گئی رقم کے 90 فیصد پر پھنسی ہوئی ہیں اور وصول نہ کی جاسکنے والی ادائیگیاں 10 فیصد یعنی 150 ارب روپے سالانہ پر ہیں، اس میں مزید 300 ارب روپے کی چوری شمار کریں تو یہ شعبہ تجارتی حیثیت کھو دیتا ہے۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ المیہ سامنے آرہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم جائزہ نہیں لے سکے، کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے ہم نے ہمیشہ ٹیرف میں اضافے پر انحصار کیا جو کہ تیزی سے اپنی افادیت کھو دیتا ہے کیونکہ ریکوری میں کمی اور چوری بڑھ جاتی ہے جس سے شعبہ واپس اسی مقام پر آکھڑا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: بجلی کے نرخ میں 6 روپے 10 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس اضافے سے اس شعبے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے لوگوں کو اتنا نقصان پہنچے گا جتنا کہ عام طور پر خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔
پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے سابق سربراہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیپرا کے پاس بجلی کے نرخوں کو ایڈجسٹ کرنے کا تین جہتی طریقہ کار ہے جس میں ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قیمت کا فیصلہ کرتے وقت نیپرا 9 متغیرات پر غور کرتا ہے جن میں ایندھن کی قیمت، ڈالر کی برابری، آپریشن اور مینٹی نینس چارجز شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمتوں میں 4 روپے 85 پیسے فی یونٹ اضافہ
انہوں نے کہا کہ اگر ڈالر کی قیمت میں ابھی اضافہ کیا جاتا ہے تو اس کا بعد میں ہونے والی ایڈجسٹمنٹ پر صفر سے کم اثر پڑے گا، تیل کی قیمتوں کا بھی یہی حال ہے، اگر موجودہ تعین میں بنیادی حوالہ قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے تو مستقبل میں فیول لاگت کی ایڈجسٹمنٹ اسی طرح کم ہو جائے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بنیادی طور پر ان تمام ایڈجسٹمنٹس کو آئندہ مالی سال میں دوبارہ ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
ٹیرف کے تعین کے عمل میں شامل پیپکو کے ایک سابق افسر نے کہا کہ ’اس قسم کا غیر معمولی اور تیز اضافہ نیپرا کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، یہ عوامی مفادات کے محافظ کے طور پر اس کے کردار پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے‘۔
مزید پڑھیں: کراچی والوں کیلئے بجلی کے نرخوں میں 4.83 روپے فی یونٹ کا اضافہ
انہوں نے سوال کیا کہ جب ان کے پاس ماہانہ، سہ ماہی اور سالانہ اضافے کے آپشن تھے تو انہوں نے ان سب کو ایک ہی قدم میں ختم کر کے ایک ہی بار میں قیمت کیوں بڑھا دی؟ یہ ایک سال یا اس سے زائد عرصے میں اضافے کو روک سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے سے دباؤ کا سامنا کرنے والے صارفین پر یہ اضافی بوجھ نیپرا کی ناکامی ہے۔