بجٹ 23-2022: 'اسٹاک مارکیٹ کیلئے توقع سے بہتر رہا'
مالی سال 23-2022 کا مجوزہ بجٹ اتنا خراب نہیں جتنا کہ اسٹاک مارکیٹ کے کھلاڑیوں کی توقع تھی، عالمی مالیاتی فنڈ کے دائمی خوف پر مبنی 'خوفناک پیش گوئیاں' کہ بجٹ میں سخت پیشگی شرائط عائد کی جائیں گی بڑے پیمانے پر غلط ثابت ہوئیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹاپ لائن سیکیورٹیز ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر عمیر نصیر نے کہا کہ 'میرا ابتدائی تاثر یہ ہے کہ بجٹ اسٹاک مارکیٹ کے لیے غیر جانبدار ہے، اس میں متعارف کرائے گئے اقدامات کا مجموعہ مکمل طور پر مثبت یا منفی نہیں ہے۔
وفاقی بجٹ کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس میں اضافہ ہے، روایتی سوچ کہتی ہے کہ غیر منقولہ جائیداد پر زیادہ شرح پر ٹیکس لگانا سرمایہ کاری کو رئیل اسٹیٹ سے اسٹاک مارکیٹ کی جانب موڑ دیتا ہے، ہم نے طویل عرصے سے اس بات کو برقرار رکھا کہ سرمایہ کاری کے تمام مقامات کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہئے، چنانچہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو دی گئی بڑے پیمانے پر مراعات کی واپسی خوش آئند خبر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سیاسی مخالفت کے پیش نظر بجٹ میں غیرمقبول ٹیکس کے نفاذ سے گریز
پہلے گھر کو چھوڑ کر ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ کی منصفانہ مارکیٹ ویلیو والی تمام غیر منقولہ جائیدادوں پر کرائے کی سمجھی جانے والی آمدنی کا 20 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا، یہ کرائے کی آمدنی جائیداد کی منصفانہ مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر ہوگی۔
اس کے علاوہ 15 فیصد کا کیپیٹل گین ٹیکس ایک سال سے کم عرصے کے لیے رکھی گئی ریئل اسٹیٹ پر لاگو ہوگا، الفلاح سی ایل ایس اے ریسرچ کے مطابق جائیدادوں کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس فائلرز کے لیے ایک فیصد سے 2 فیصد اور نان فائلرز کے لیے 5 فیصد ہو جائے گا۔
بینکنگ، آٹو سیکٹر پر ٹیکس عائد
اے کے ڈی سیکیورٹیز نے سرمایہ کاروں کے لیے ایک تحقیقی نوٹ میں کہا کہ 'کارپوریٹ آمدنی بہت سے معاملات میں زیادہ ٹیکس کی شرح سے مشروط ہوگی، تاہم 30 کروڑ روپے سے زیادہ کی کارپوریٹ آمدنی پر اضافی 2 فیصد ٹیکس جیسے نئے اقدامات ریئل اسٹیٹ پر زیادہ ٹیکس لگانے سے چھپ جانے کا امکان ہے'۔
بظاہر لگتا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ بینکنگ ہے کیونکہ تجارتی قرض دہندگان 39 فیصد کے بجائے 42 فیصد کارپوریٹ ٹیکس ادا کریں گے، جس میں 3 فیصد سپر ٹیکس بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے عمیر نصیر کا خیال ہے کہ ٹیکس کی شرح میں تبدیلی سے بینکوں کے منافع کو 5 فیصد تک نقصان پہنچے گا۔
وہ بینکرز جن میں سے بہت سے حکومت کے فیصلے سے خوش نہیں، عوامی طور پر تبصرہ کرنے سے گریزاں ہیں۔
تاہم ایک سینئر سابق بینکر نے کہا کہ حکومت ٹیکسوں میں اضافے کا مکمل جواز رکھتی ہے کیونکہ بینک ریکارڈ منافع کما رہے ہیں لیکن معاشی ترقی میں حصہ نہیں ڈال رہے۔
حکومت کو اضافی ٹیکسوں کے ذریعے 15 سے 20 ارب روپے حاصل کرنے کی توقع ہے، کچھ ناقدین نے کہا کہ حکومت نے درست فیصلہ کیا ہے کیونکہ بینک زیادہ تر سرکاری کاغذات میں سرمایہ کاری کر کے پیسہ کما رہے ہیں۔
پاکستان میں ایڈوانس ٹو ڈپازٹ کا تناسب خطے میں سب سے کم ہے، جس کا مطلب ہے کہ بینک تجارت اور صنعت کو فنڈ دینے کا اپنا اصل کام نہیں کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کے مقامی اسمبلرز ایڈوانس ٹیکس میں اضافے سے ناخوش
مجوزہ بجٹ کا ایک اور شکار آٹو سیکٹر ہے، جسے 1600 سی سی اور اس سے زیادہ کی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کے علاوہ بجٹ میں سیلز ٹیکس کو وگنا کرنے اور وفاقی حکومت کی جانب سے گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کی تجویز دی گئی ہے۔فارما، فائدہ کے لیے کھانا
ادویہ سازی، خوراک کے شعبے کیلئے فوائد
اے کے ڈی سیکیورٹیز نے کہا کہ مجوزہ بجٹ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے لیے مثبت ہے کیونکہ 30 سے زائد فعال فارماسیوٹیکل اجزا (اے پی آئیز) کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہوں گے۔
اے پی آئیز ادویات کا اہم حصہ ہیں جو مطلوبہ اثر پیدا کرتی ہیں اور زیادہ تر پاکستان میں درآمد کی جاتی ہیں۔
مجوزہ بجٹ سے ایک اور فائدہ اٹھانے والا شعبہ خوراک کا شعبہ ہے، جس میں گندم، مکئی، سورج مکھی اور کینولا کے بیجوں کی سپلائی پر سیلز ٹیکس کو ہٹانا کا کہا گیا ہے۔
علاوہ ازیں ہم نیٹ ورک لمیٹڈ جیسی لسٹڈ انٹرٹینمنٹ کمپنیاں بھی بجٹ کے ذریعے متعارف کرائے گئے اقدامات سے فائدہ اٹھائیں گی، جس میں فلم سازوں، نئے سنیما پروڈکشن ہاؤسز اور فلم میوزیم کے لیے5 سال کی ٹیکس چھوٹ شامل ہے۔
مزید پڑھیں: لیوی میں اضافے کے سبب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا امکان
فلم اور ڈرامے پر 10 سالہ ایکسپورٹ ٹیکس چھوٹ کے علاوہ فلم پروڈیوسرز کو انکم ٹیکس سے چھوٹ بھی ملے گی۔
بجٹ سیمنٹ سیکٹر کے لیے غیر جانبدار ہے کیونکہ ریئل اسٹیٹ پر اضافی ٹیکس تعمیرات کی مانگ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سال 23-2022 کے بجٹ میں تجویز کردہ سبسڈیز اور پیٹرولیم لیوی جیسے اقدامات کی آمیزش کی وجہ سے آئل مارکیٹنگ اور پاور سیکٹرز سے تعلق رکھنے والے اسٹاکس کے غیر جانبدار رہنے کی بھی توقع ہے۔