پاکستان کی قومی لفظیات
قومی زبان، قومی لباس، قومی ترانہ تو ہر قوم کا ہوتا ہے، مگر ہماری تو قومی لفظیات بھی ہیں۔
یہ کچھ دعووں، اصطلاحات اور نعروں پر مبنی الفاظ ہیں جو آپ کو ہر سیاستدان اور حکمران سے سننے کو ملیں گے۔ ہمارے ملک میں انتقال اقتدار میں لاکھ اختلافات اور مسائل ہوں لیکن سیاسی رہنما اقتدار سے حزبِ اختلاف میں آتے اور حزبِ مخالف سے حکومت کی کرسی کی طرف جاتے ہوئے بڑی خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے سے ان لفظوں کا تبادلہ کرلیتے ہیں۔
ان لفظیات میں کچھ ایسے لفظ اور فقرے بھی شامل ہیں جو کبھی نہ کبھی ہر سیاستدان کی زبان پر آتے ہیں۔ چلیے آپ کو ان لفظوں، فقروں، اصطلاحات اور دعووں کے اصل مفہوم سے متعارف کرائیں۔
انقلاب
پاکستان میں انقلاب لانے کی بات دہی اور دھنیہ پودینہ لانے کی طرح ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے قوم نے سیاستدانوں سے کہا ہو ‘سنیے، ایک کلو انقلاب لیتے آئیے گا اور دیکھ کر لائیے گا، ٹھیلے والا خراب نہ دے دے،’ اور پھر سیاستدان انقلاب لانے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
دنیا میں اتنے انقلاب نہیں آئے جتنے ہمارے ہاں قائدِ انقلاب ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کسی نے انقلاب کا پہلا قاعدہ بھی نہیں پڑھا، یوں قاعدے سے تو انہیں انقلاب کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے، مگر معاملہ فائدے کا ہو تو کیا کیا جائے۔
یہ جملہ بار بار سُننے کو ملتا ہے کہ ‘انقلاب دستک دے رہا ہے’، ہم نے بارہا سوچا کہ ایسا کہنے والوں سے پوچھیں، بھیا! اس ملک میں غیر قانونی تارکین وطن، منشیات، اسلحہ، دہشتگرد دروازہ کھٹکھٹائے اور گھنٹی بجائے بغیر وارد ہوجاتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آواز آئے ’ٹنگ ٹانگُ‘ پوچھا جائے، کون ہے؟ جواب ملے ‘اے بہن! میں ہوں منشیات، ذرا دروازہ تو کھولو اندر آکر پھیلنا ہے’۔ تو تمہارا انقلاب دستک دے کر کیوں آنا چاہتا ہے؟
ممکن ہے ہماری طرف آنے والا انقلاب بہت شریف، نفیس اور وضع دار ہو، اندر آنے کے لیے دروازہ بجاتا ہو اور کون کے سوال پر کہتا ہو ‘حضور، فدوی کو انقلاب کہتے ہیں، اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمادیجیے، عین نوازش ہوگی،’ لیکن جب جواب ملتا ہو ‘معاف کرو بابا’ تو انقلاب میاں دروازہ چھوڑ کر پتلی گلی پکڑ لیتے ہوں۔
مزید پڑھیے: خبر لیجے زباں ‘پھسلی’
ہمارے ملک میں انقلاب کے لیے اپنا خون بہانے جیسی کوئی تمنا نہیں کی جاتی، یہاں فون سے انقلاب لانے کی جدوجہد ہوتی ہے یا دوسرے کے خون سے، چنانچہ ہمارا سرِفہرست نعرہ ہے ‘فلانے تیرے خون سے انقلاب لانے آئے گا، ڈِھماکے تیرے خون سے انقلاب آئے گا’۔ المیہ یہ ہے کہ جن کے خون سے انقلاب لانے کے نعرے لگتے ہیں ان بے چارے غریبوں کے خون پر اکثر پولیس بھی نہیں آتی۔
آہنی ہاتھ
یہ حکومت کا ہاتھ ہے، جس کے ذریعے وہ بدامنی پھیلانے والوں سے نمٹنے کا ارادہ ظاہر کرتی ہے، کبھی کبھی نمٹ بھی لیتی ہے، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب نمٹنے کا موقع آئے تو پتا چلتا ہے کہ رکھے رکھے آہنی ہاتھ کو زنگ لگ گیا تھا، اس لیے وہ ٹین ڈبے والے کو بیچ دیا۔
کبھی یہ آہنی ہاتھ ذرا سی چوں وچرا پر بھی کچل ڈالتا ہے تو کبھی بڑے سے بڑا فساد دیکھ کر بھی سر کھجاتا رہ جاتا ہے، اور یہ انکشاف ہوتا ہے کہ آہنی ہاتھ کے بھی مہندی لگتی ہے۔ جس حساب سے ملک میں بدامنی اور جرائم ہیں اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آہنی ہاتھ نمٹنے سے زیادہ کمر کی کھجلی کھجانے، مکھیاں بھگانے اور برف توڑنے کے کام آتا ہے۔
ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے
بچپن سے سُن رہے ہیں کہ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ انتظار ہے کہ کسی روز آواز آئے گی ‘معزز خواتین و حضرات! ملک نازک حالات سے گزر چکا ہے، اب آپ اپنی اپنی سیٹ بیلٹس کھول دیں،’ مگر یہ نازک حالات شیطان کی آنت کی طرح اتنے طویل ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔
دنیا میں کتنے ہی بحران، وبائیں، مصیبتیں آئیں اور گزر گئیں، لیکن ہمارے نازک حالات ہیں کہ چلے جارہے ہیں۔ کوئی یہ بھی نہیں بتاتا کہ یہ حالات کتنے نازک ہیں؟ دل سوا شیشے سے نازک، دل سے نازک خوئے دوست جتنے یا نازکی ان لبوں کی کیا کہیے کی نازکی لیے ہوئے؟ سمجھ میں یہ آتا ہے کہ یہ حالات کراچی کے کئی پُلوں اور پیدل چلنے والوں کی بالائی گزرگاہوں کی طرح ہیں، اور ملک ان پر سے ڈرتے ڈرتے ‘ہولی ہولی’ گزر رہا ہے کہ ذرا زور سے قدم پڑنے سے گر نہ پڑیں۔
خزانہ خالی ہے
ہمارے ملک میں آنے والی ہر حکومت کو دو چیزیں آتے ہی ملتی ہیں، غصے سے بھری ہوئی حزبِ اختلاف اور خالی خزانہ۔ ہر حکمران آنے کے فوراً بعد قوم کو مطلع کردیتا ہے کہ ‘خزانہ خالی ہے’ اس شعر کی تشریح یہ ہوتی ہے کہ ‘بھائی میاں غریب عوام! وعدے وعید اپنی جگہ، لیکن ہمارے آسرے پر مت رہنا، تمہارے حالات نہیں بدلنے والے‘۔
حالانکہ عوام کے لیے یہ کوئی انکشاف نہیں ہوتا، وہ پہلے ہی جانتے ہیں کہ خزانہ اور حکومت میں آنے والوں کا پیٹ خالی ہے، سو ان کی جیبیں مزید خالی کرنے کی تیاری کی جائے گی۔ رفتہ رفتہ قوم پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ خزانے کی طرح حکمران کا سر بھی خالی ہے اور ان سے جو کچھ کہا گیا تھا وہ بس خالی خولی دعوے تھے۔
مزید پڑھیے: جب لانگ مارچ، چھلانگ مارچ، پھلانگ مارچ اور بھاگ مارچ میں تبدیل ہوجاتا ہے
جان قربان کردیں گے
پاکستان کے سیاستدان ملک پر، اور ان کے حامی ان پر جان قربان کرنے کا عزم کرتے نظر آتے ہیں۔ سُننے والوں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہ اپنی جان کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ملک اور اپنے رہنما پر دوسروں کی جان قربان کردیں گے۔ جہاں تک اپنی جان کا تعلق ہے، وہ کسی بھی معنی میں ہو، اس کے بچانے کے لیے تو وہ جان لڑا دیتے ہیں۔
کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے
یہ حکومتی اعلان ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ بھئی قانون اندھا ہوتا ہے، اب اگر کوئی اس کے لمبے ہاتھ تھام کر راستہ پار کرادے تو اس میں کیا حرج ہے؟ ویسے یہ بات تو ہے کہ جس کام کا پتا نہ ہو اس میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے اور جس چیز کی خبر نہ ہو اسے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ اب دیکھیے وکلا قانون دان ہیں، وہ جب بھی قانون ہاتھ میں لیتے ہیں تو قانون کا کچھ نہیں بگڑتا۔
اجازت نہیں دی جائے گی
حکومت کسی کو حالات خراب کرنے، دہشتگردی اور غنڈا گردی وغیرہ کی اجازت نہیں دیتی۔ تخریب کار، دہشتگرد اور غنڈے لاکھ اجازت مانگیں کہ سرکار! بس ایک بار اجازت دے دیں، ایک دو گاڑیاں جلادیں، تھوڑا سا پتھراﺅ کرلیں، دو چار بم پھاڑ لیں، لیکن حکومت صاف منع کردیتی ہے کہ ہم اجازت نہیں دینے کے، جو کرنا ہے اپنی ذمے داری پر کرو، اور مجبوراً انہیں یہ سب بلا اجازت کرنا پڑتا ہے۔
آپ یقین رکھیں کہ ایسے جتنے بھی واقعات اور وارداتیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک کی بھی حکومت نے اجازت نہیں دی اور اگر ہم جھوٹ بول رہے ہیں تو کوئی سرکاری اجازت نامہ دکھا دیجیے اور ہم سے منہ مانگی رقم لے لیجیے۔
مزید پڑھیے: سیاستدانوں میں پھیلی ‘مِلو ناں’ کی وبا
فلاں ملک دشمن اور غدار ہے
جس طرح لوگ کسی بیماری کا شکار یا وبائی مرض سے دوچار ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں دوبارہ صحت عطا ہوجاتی ہے، اسی طرح ہمارے ہاں حکومتی حکما اور سیاسی طبیب سیاسی رہنماؤں میں ملک دشمنی اور غداری کا مرض تشخیص کرکے عوام کو آگاہ کردیتے ہیں کہ فلاں صاحب غداری اور ملک دشمنی کے متعدی مرض میں مبتلا ہیں، عوام ان سے سماجی اور سیاسی فاصلہ رکھیں۔
ایک وقت کے بعد جب عوام ان مریضوں اور مرض کی تشخیص کرنے والوں کو ساتھ بیٹھے اور ایک دوسرے کے گلے لگتے دیکھتے ہیں، تو انہیں پتا چلتا ہے کہ اب بیمار کا حال اچھا ہے۔
مشکل فیصلہ
یہاں آسان فیصلوں کو مشکل کہا جاتا ہے، جیسے پیٹرول کی قیمت بڑھانا، بجلی اور گیس کے نرخ میں اضافہ، عوام کو دی ہوئی رعایت واپس لینا۔ حکمران یہ مشکل فیصلے بڑی آسانی سے کرلیتے ہیں۔ بعض تو فیصلہ کرتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں، دراصل وہ عوام کی طرف سے اس فیصلے پر رونے کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مشکل فیصلے کے بعد مزید مشکلات کا شکار ہوجانے والے عام آدمی کے پاس اب رونے کی فرصت بھی نہیں ہوگی، اس لیے وہ کمال مہربانی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کا رونا بھی خود رولیتے ہیں۔
بڑی سہولت سے ہونے والے مشکل فیصلوں کے مقابلے میں ایک ہوتا ہے کٹھن فیصلہ، یہ فیصلہ کرکے ٹھن سکتی ہے، اس لیے یہ فیصلہ کرنے کی کبھی نہیں ٹھانی جاتی۔ کٹھن فیصلے سے مراد ہے حکمرانوں، وزیروں، ارکان اسمبلی، وردی اور کوٹ پینٹ پہنے افسران کی مراعات میں رتی برابر کمی، اور ایسا فیصلہ کرکے فیصلہ ساز خود مشکل میں پڑسکتے ہیں۔
نہ جُھکنے والا نہ بِکنے والا
بلدیاتی انتخابات کے امیدوار کے پوسٹر سے سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شان میں ان کے حامیوں کی سوشل میڈیا پوسٹوں تک آپ کو ان کے بارے میں یہ جاننے کو ملے گا کہ موصوف نہ بکنے والے ہیں نہ جُھکنے والے۔ ان حضرات کے بس یہ دو اوصاف ہی بیان کیے جاتے ہیں، ساتھ یہ بتانے سے گریز کیا جاتا ہے کہ ان صاحب کے کرائے پر اٹھنے، انقلاب لاتے لاتے اچانک رکنے اور بُرا وقت آتے ہی پردیس میں جا چھپنے جیسے افعال کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔