بجٹ میں برآمدی ہدف 35 ارب ڈالر رکھنا خوش آئند، تاہم صنعت کاری پر توجہ دینا ہوگی، صنعتکار
تاجروں و صنعت کاروں نے بجٹ 23-2022 میں برآمدی ہدف کو 35 ارب ڈالر مقرر کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بجٹ پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد شکیل منیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جتنے بھی خصوصی اکنامک زونز بنیں گے اتنے ہی کم ہیں، جب تک صنعت کاری کی طرف پیشرفت نہیں کریں گے، مینوفیکچرنگ کی صلاحیت نہیں بڑھائیں گے اس وقت تک برآمدات میں اضافہ نہیں ہوگا اور ہمارا انحصار درآمدات پر ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں حکومت سے درخواست کروں گا کہ صنعتکاری کی طرف توجہ مرکوز کریں، جبکہ بین الاقوامی برینڈز کو پاکستان میں مینوفیکچرنگ کے لیے بلائیں گے تو اس سے برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا اور درآمدات پر انحصار بھی کم ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد چیمبر دو سال سے اس پر کام کر رہا ہے اور ہماری درخواست ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں عالمی معیار کے مطابق صنعتی زون ہونا چاہیے، کیونکہ غیر ملکی بآسانی یہاں پر پہنچ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی کم از کم حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ کرنا بہت اچھا اقدام ہے، ایسوسی ایشن آف پرسن کے لیے 4 لاکھ سے 6 لاکھ کرنا بھی بہتر ہے۔
مزید پڑھیں: مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش، دفاعی بجٹ میں اضافہ، ماہانہ ایک لاکھ تک تنخواہ پر ٹیکس ختم
انہوں نے کہا کہ چھوٹے ریٹیلز کے لیے 3 ہزار سے 10 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس کرنے اور بلوں کے ذریعے وصول کرنے سے چھوٹی اور درمیانی انٹرپرائزز کے لیے آسانی ہوگی، اس سے محکمے کا خوف اور دشواریوں کا خاتمہ ہوگا جبکہ حکومت کو خاطر خواہ آمدنی بھی حاصل ہوگی اور ٹیکس بیس بھی بڑھے گا۔
سولرپینلز پر ٹیکس ختم کئے جانے کو سراہاتے ہوئے اسلام آباد چیمبر کے صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں گرین انرجی کی طرف پیش رفت کرنا چاہیے، ہمیں ایندھن کو درآمد کرنا پڑتا ہے، سولر سے بجلی حاصل کرنے کی صورت میں ایندھن کی درآمدات میں کافی کمی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی مقامی طور پر تیل کی پیدوار پر توجہ نہیں ہے، ہمیں ایندھن کی مقامی پیداوار کے لیے کام کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: امیر طبقے کے غیر پیداواری اثاثوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعظم
انہوں نے کہا کہ صنعتوں کے لیے تمام ٹیکسز کو ایڈجسٹ ایبل کرنا بھی اچھا قدم ہے، جس سے صنعتکاروں کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ فارماسیوٹیکل سیکٹر میں کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کو ختم کیا گیا ہے جس سے اس صنعت میں بہتری آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ سیگریٹ پر ٹیکس بڑھانا بھی اچھا اقدام ہے۔
شکیل منیر نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد تنخواہ بڑھانا بھی اچھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زراعت پر مشین و آلات کے لیے اچھے اقدامات کیے گئے ہیں، ہم زرعی زمین کا فائدہ نہیں اٹھا رہے، ہمسایہ ملک کا پنجاب پاکستان سے چھوٹا ہونے کے باوجود ہمارے مقابلے میں 5 گنا زیادہ فصلوں کی پیداوار حاصل کر رہا ہے۔
صدر اسلام آباد چیمبر نے کہا کہ زرعی زمین کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں منتقل کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں: بجٹ 23-2022، ملکی دفاع کے لیے ایک ہزار 523 ارب روپے مختص
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر نے پریس کانفرنس میں بجٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ متعدد ایسی چیزیں ہیں جن کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں، جیسا کہ 400 مصنوعات کے ٹیرف کی ریشنالائزیشن ہوئی ہے اس کی تفصیلات کا ہمیں انتظار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح برآمدات کے حوالے سے بھی ماسوائے ایک دو عناصر چیزوں کے جامع پالیسی سامنے نہیں آسکی ہے، اسی طرح پراپرٹی پر ٹیکسوں کے حوالے سے جو زائد ٹیکسز عائد کیے ہیں، پچھلے سال پوائنٹ آف سیلز سے متعلق جو پالیسی آئی تھی، وزیر خزانہ مزید وضاحت کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی گئی ہے، اسی طرح دیگر صنعتوں میں استعمال ہونے والا خام مال دستیاب نہیں ہے ان پر بھی ہر قسم کی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کی منظوری دے
اس موقع پر لاہور چیمبر کے سابق صدر شہزاد علی ملک نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کا ہدف 35 ارب ڈالر رکھنا خوش آئند ہے۔
کراچی چیمبر کے سابق صدر شارق وہرا نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کے اہداف اچھے ہیں، تاہم بزنس کمیونٹی اس وقت تک حتمی نہیں بتا سکتی جب تک فنانس بل کو پڑھ نہ لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں آئی ٹی اور برآمدات کے لیے خاص مراعات نظر نہیں آئیں۔
پاکستان کے لیے آنے والا وقت بہت مشکل ہے، چیئرمین موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن
آل پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزد نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں مہنگائی نظر آتی ہے، کیونکہ نئے ٹیکسز کا اضافہ کیا گیا ہے، حکومت نے کہیں کہیں ریلیف دینے کوشش کی ہے لیکن پاکستان کے لیے آنے والا وقت بہت مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس دینے والوں پر ہی بوجھ ڈالا گیا ہے جبکہ انہوں نے کوئی نئے ذرائع نہیں بتائے جہاں سے ٹیکس حاصل کریں گے۔
بلوچستان کیلئے پی ایس ڈی پی میں کم رقم رکھنا زیادتی ہے، صدر کوئٹہ چیمبر
کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹر کے صدر فدا حسین نے ڈان نیوز ڈاٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے عوام اور تاجروں کے لیے بجٹ سخت ہے، تاہم حکومت نے ریلیف دینے کی کوشش کی ہے، سابقہ حکومت کی وجہ سے ساری مشکلات ہوئی ہیں، نواز شریف حکومت چیزوں کو بہتر کرتی ہے، مجھے یقین ہے کہ تکلیف سے لوگ گزر جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے تکلیف ہوئی کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں بلوچستان کے لیے سڑکوں، ڈیمز، زراعت و دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے جو رقم رکھنی چاہیے تھی، وہ نہیں رکھی گئی، بلوچستان میں ایک بھی موٹروے نہیں ہے، وزیر اعظم خود بلوچستان آئے لیکن پی ایس ڈی پی میں مناسب رقم نہ رکھنا درست نہیں ہے۔
اہوں نے کہا کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر پہلے سے نقصان میں ہے، کوئٹہ میں لوگ ریئل اسٹیٹ میں کام کر رہے ہیں، اس سیکٹر پر بوجھ ڈالنے سے یہ سیکٹر ختم ہونے جارہا ہے، سریا، سیمنٹ، لیبر کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں، ایک سے زیادہ گھروں کے لیے ٹیکس عائد کرنا بھی درست نہیں ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کا کہنا تھا کہ چھوٹے ریٹیلرز پر 3 ہزار سے 10 ہزار روپے ٹیکس عائد کرکے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا اچھا قدم ہے۔
ٹیکسٹائل سیکٹر کو توانائی کی مسابقتی نرخوں پر فراہمی کا تسلسل خوش آئند ہے، ساؤتھ چیئرمین اپٹما
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ساؤتھ زون آصف انعام نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پالیسی کے تسلسل میں سنجیدہ ہے جو کہ خوش آئند ہے کیونکہ انہوں نے توانائی کی قیمت کو مسابقتی نرخوں پر فراہم کرنے کا کہا ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کی بحالی اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ بجلی و گیس مسابقتی قیمتوں پر فراہم کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ حکومت جلد ہی بجلی و گیس کی قیمتوں کے حوالے سے بتائے گی، توانائی کو مسابقتی نرخوں پر فراہم کرنے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات کا 21 ارب سے 26 ارب ڈالر کی طرف سفر جاری رہے گا۔