پاکستان

اقتصادی سروے: ٹیکس چھوٹ سے قومی خزانے کو 17 کھرب 57 ارب روپے کا نقصان ہوا

سال 2018 میں ٹیکس استثنیٰ 540.98 ارب روپے، 2019 میں 972.40 ارب، 2020 میں 14 کھرب 90 ارب، 2021 میں 13 کھرب 14 ارب روپے تک پہنچ گیا۔

وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا جاری کردہ پاکستان اقتصادی سروے 22-2021 ظاہر کرتا ہے کہ ٹیکس چھوٹ 33.71 فیصد بڑھ کر17 کھرب 57 ارب روپے تک پہنچ گئی جو ایک سال پہلے 13 کھرب 14 روپے تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس کی چھوٹ کی لاگت نے مسلسل چوتھے سال اپنے بڑھتے رجحان کو جاری رکھا جس کی بنیادی وجہ برآمدی صنعتوں کی لاگت کم کرنے کے لیے خام مال اور نیم تیار شدہ اشیا پر دیا گیا استثنیٰ تھا۔

ایف بی آر نے رواں سال جنوری میں زیادہ تر سیلز ٹیکس کی مد میں تقریباً 350 ارب روپے کی چھوٹ واپس لی جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت کھادوں اور مشینری پر جزوی چھوٹ دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: 300 ارب اضافی ریونیو کی وصولی کیلئے حکومت کا بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے پر غور

اس کے علاوہ حکومت نے جولائی اور مارچ 2022 کے درمیان 2 ارب 59 کروڑ ڈالر کی ڈیوٹی فری کووڈ 19 ویکسین درآمد کی۔

مالی سال 2018 میں ٹیکس استثنیٰ کی مالیت 5 کھرب 40 ارب 98 کروڑ روپے تھی جو مالی سال 2019 میں بڑھ کر 9 کھرب 72 ارب 40 کروڑ روپے، مالی سال 2020 میں 14 کھرب 90 ارب روپے اور مالی سال 2021 میں 13 کھرب 14 ارب روپے تک پہنچ گئی، جس کی بنیادی وجہ صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے تمام شعبوں کو ٹیکس میں رعایت دینا ہے۔

ٹیکس میں استثنیٰ ریاست کی جانب سے مختلف زمروں اور گروہوں میں آمدن پر دی گئی چھوٹ ہے۔

رواں مالی سال میں حکومت نے روزگار پیدا کرنے کے لیے ترقی کی حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے صنعتوں اور زراعت کو بڑے پیمانے پر ریلیف دیا ہے، پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی تین برسوں میں توجہ معیشت کے استحکام پر تھی۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کی برآمدی صنعتوں کے خام مال پر تمام ٹیکس ختم کرنے کی ہدایت

اس حکمت عملی کے نتیجے میں زراعت کی ترقی نے اپنے متوقع ہدف کو عبور کر لیا جبکہ مجموعی اقتصادی ترقی جون 2022 کے آخر تک تقریباً 6 فیصد ہو جائے گی۔

انکم ٹیکس کی چھوٹ مالی سال 2021 میں 4 کھرب 48 ارب 4 کروڑ 60 لاکھ روپے سے کم ہو کر مالی سال 22 میں 3 کھرب 99 ارب 66 کروڑ 20 لاکھ روپے ہوگئی جو کہ 11 فیصد کی کمی ہے۔

انکم ٹیکس میں کاروباری افراد کو دی گئی ٹیکس کریڈٹ کی لاگت گزشتہ سال ایک کھرب 5 ارب 34 کروڑ 20 لاکھ روپے کے مقابلے میں کم ہو کر 65 ارب 46 کروڑ 50 لاکھ روپے رہ گئی۔

الاؤنسز کی استثنیٰ لاگت کا تخمینہ 10.625 ارب روپے ہے جو گزشتہ سال 37.318 ارب روپے تھا، جو کہ 72 فیصد کی کمی ہے۔

سیلز ٹیکس کی چھوٹ مالی سال 21 میں 578.456 ارب روپے سے 75 فیصد بڑھ کر 1.014 ارب روپے ہوگئی، جس کی بنیادی وجہ درآمدات پر چھٹے شیڈول کے تحت چھوٹ ہے، پانچویں شیڈول کے تحت زیرو ریٹنگ کے استثنیٰ کی لاگت 12.88 ارب روپے سے کم ہو کر 11.36 ارب روپے ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس دائرہ کار وسیع کرنے کا منصوبہ تاخیر کا شکار

مسلسل کمی اس حقیقت کی وجہ سے ہے کہ حکومت نے پانچ برآمدی شعبوں کی زیرو ریٹڈ معاملات ختم کر دیے۔ 19-2018 میں ان پانچ شعبوں سے آمدنی کے نقصان کا تخمینہ 87 ارب روپے لگایا گیا تھا۔

ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح

اقتصادی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جی ڈی پی میں ٹیکس کا تناسب مالی سال 2021 میں 8.5 فیصد سے مالی سال 2022 میں 10.8 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ مالی سال 2007 سے یہ تناسب 10 فیصد کو چھونے پر چند مستثنیات کے ساتھ 9 فیصد کے قریب منڈلا رہا ہے، سال 2018 میں تناسب 11.1 فیصد رپورٹ کیا گیا تھا۔

ایف بی آر کو رواں سال جون کے آخر تک 58 کھرب 20 ارب روپے جمع ہونے کی توقع ہے تاہم اس نے غیر رسمی طور پر رواں مالی سال کے لیے اپنے ریونیو ہدف کو 61 کھرب روپے تک بڑھا دیا ہے، اس وقت سیلز ٹیکس کل وصولی کا 42 فیصد ہے، اس کے بعد براہ راست ٹیکس 36.5 فیصد، کسٹمز 16 فیصد اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 6 فیصد ہے۔

ایران کے اقدامات سے 'جوہری بحران' سنگین ہونے کا خطرہ ہے، امریکی وزیر خارجہ

کراچی: مندر میں توڑ پھوڑ، نا معلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج

پارلیمنٹ سے تنخواہیں، مراعات وصول کرنے والے آج ایوان پر حملہ آور ہوئے، مریم اورنگزیب