چیئرمین نیب کے انتخاب کیلئے سپریم کورٹ سے رائے طلب کرنے کی درخواست مسترد
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے قومی احتساب بیورو (نیب)کے چیئرمین کے تقرر کے لیے سپریم کورٹ سے مشاورت کی درخواست مسترد کر دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایچ سی کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ دیا کہ قانون نے منتخب نمائندوں کو بامعنی مشاورت کے ذریعے چیئرمین نیب کے تقرر کا اختیار دیا ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے اسفندیار ولی کیس اور دیگر میں چیئرمین نیب کے تقرر سے متعلق سپریم کورٹ کی سفارشات / مشاہدات پر عمل درآمد کے حوالے سے ہدایت طلب کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے صدر کی جانب سے چیئرمین کی تقرری کی تجویز دی تھی۔
مزید پڑھیں: جسٹس (ر) جاوید اقبال چیئرمین نیب کے عہدے سے سبکدوش
قومی احتساب آرڈیننس (1999) کو 16 نومبر 1999 کو سرکاری گزٹ میں جاری اور نوٹی فائی کیا گیا تھا، بیورو کے چیئرمین کے تقرر کا طریقہ 1999 کے آرڈیننس کے سیکشن 6 کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
مذکورہ شق میں پارلیمنٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً ترمیم کی جاتی رہی ہے، تقرر کا موجودہ طریقہ آرڈیننس کے سیکشن 6 کی شق بی (ون) کے تحت طے کیا گیا ہے۔
آئینی شق میں اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ چیئرمین کا تقرر صدر قومی اسمبلی میں ایوان کے قائدین اور اپوزیشن کی مشاورت سے کرے گا۔
1999 کے آرڈیننس کے سیکشن 6 کے اختیارات کو پٹیشن کے ذریعے چیلنج نہیں کیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے مشاہدہ کیا کہ سپریم کورٹ نے بھی سیکشن 6 کے اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب کے نئے چیئرمین کی تلاش شروع
عدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ ریاست کا سب سے بڑا قانون ساز ادارہ ہے، سیکشن 6 کے تحت بیان کردہ چیئرمین کے تقرر کا طریقہ یقینی طور پر کسی بھی طرح سے آئینی دفعات کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ صدر کی جانب سے قومی اسمبلی میں منتخب نمائندوں کے رہنمائوں کی مشاورت سے نیب کے چیئرمین کے تقرر سے آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی کسی دوسری شق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے وکیل عدالت کو قائل نہیں کر سکے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی تجویز یا سفارش پارلیمنٹ پر لازم ہے۔
عدالتی حکم میں وضاحت کی گئی کہ’ ان کے سوال کی واضح طور وضاحت سپریم کورٹ نے چوہدری نثار علی خان بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے عنوان سے فیصلے میں کی ہے’۔
مزید پڑھیں: نئے چیئرمین نیب کے بارے میں مشاورت پر حکومت مشکل میں
یہ فیصلہ 5 معزز ججوں پر مشتمل لارجر بینچ نے سنایا، بینچ کا موقف تھا کہ اس عدالت کی جانب سے فیصلے میں دی گئی کوئی تجویز یا سفارش اگرچہ مناسب احترام اور غور و خوض کی حقدار ہے لیکن اس کی اہمیت کسی تجویز یا سفارش سے زیادہ نہیں ہے اور یہ خود قانون کی حیثیت نہیں رکھتا۔
آئی ایچ سی کے حکم میں ایک اور کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس میں سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی میں ایوان اور اپوزیشن کے رہنماؤں کی مشاورت سے نیب چیئرمین کے تقرر کی توثیق کی۔
تاہم ان مشاہدات کا اعادہ کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ آئینی یا قانونی طور پر مطلوبہ مشاورت کو مؤثر، بامعنی، بامقصد اور اتفاق رائے پر مبنی ہونا چاہیے، جس میں من مانی یا غیر منصفانہ عمل کی شکایت کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے، یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ اتفاق رائے کے لیے ایک سنجیدہ، مخلصانہ اور حقیقی کوشش کی گئی تھی۔
عدالت نے وضاحت کی کہ یہ بھی یکساں طور پر طے شدہ ہے کہ کسی بھی مشاورت میں پہلی ترجیح متعلقہ امیدوار کی خوبیوں اور خامیوں پر باہمی بحث کے ذریعہ مشیروں کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہدایت کی جانی چاہیے اور یہ مشاورت عملی طور پر یکساں سوچ کی ایک کوشش کے مترادف ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست کو خارج کر دیا۔