پاکستان

جمہوری حکومت میں آئی ایس آئی کے کردار پر مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی میں اتفاق

دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آئی ایس آئی کو سویلین کنٹرول اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہونا چاہیے۔

مسلم لیگ(ن) کی مخلوط حکومت کی جانب سے آئی ایس آئی کو سویلین اہلکاروں کی اسکریننگ کے لیے قانونی تحفظ فراہم کیے جانے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو سویلین کنٹرول میں ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہونا چاہیے۔

مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما پرویز رشید نے کہا کہ اگر سیولین افسروں کی چھان بین کا فریضہ آئی ایس آئی کی ذمے داریوں میں شامل کیا جاتا ہے پھر آئی ایس آئی کو بھی سویلین انتظامیہ کے زیر سپرد ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ کو جوابدہ بھی۔

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے پرویز رشید کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پرویز رشید درست کہہ رہے ہیں، اگر اداروں نے اپنا کردار اور بڑھانا ہے تو پھر اس کی قیمت آپ کو عوامی احتساب کی صورت میں چکانی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ادارے نے سوچنا ہے کہ اس نے پاکستان کی سیاست میں کیا کردار ادا کرنا ہے؟ میڈیا انقلاب کے بعد پاکستان میں سیاسی اداروں اور اداروں کے نئے کردار پر بحث کی ضرورت ہے۔

تحریک انصاف کی سینئر رہنما شیریں مزاری نے بھی فواد چوہدری سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے یہ بحث بہت اہم ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی عمل کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین کی شمولیت، تقرریوں اور تعیناتیوں کے ساتھ ساتھ ترقیوں سے قبل ان کی اسکریننگ کا اضافی کام، مشرقی اور مغربی سرحدوں، افغانستان، کشمیر، اندرونی دہشت گردی اور متعلقہ مسائل کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ایس آئی پر زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔

سینیٹ کے سابق چیئرمین نے کہا کہ نوٹیفکیشن ریاست کے سویلین کاموں میں اعتماد کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے اور سول اور ملٹری بیوروکریسی کے درمیان فرق کو بھی دھندلا دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: آئی ایس آئی کو سرکاری عہدیداروں کی اسکریننگ کا باضابطہ اختیار تفویض

انہوں نے کہا کہ آئین اور سول سرونٹ ایکٹ 1973 جامع قوانین تھے اور ان میں سرکاری ملازمین کی اسکریننگ کی ضرورت نہیں تھی۔

رضا ربانی نے نوٹ کیا کچھ فیصلوں میں عدالتوں نے ایسے معاملات میں انٹیلی جنس رپورٹس کو نظر انداز کیا ہے، سرکاری ملازمین پہلے ہی نیب (قومی احتساب بیورو) کے قانون کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی حکومت کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ اگرچہ یہ عمل پہلے سے موجود تھا لیکن یہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہے، اگر پاکستان کو جمہوریت کے طور پر آگے بڑھنا ہے تو سویلین معاملات میں فوج کے کردار کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے بارے میں کل اطلاع دی گئی تھی، اس اعلامیے میں کہا گیا ہے:

’سول سرونٹس ایکٹ 1973 کے سیکشن 25 کی ذیلی دفعہ نمبر ایک کے ذریعے حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم نے آئی ایس آئی کو تمام سرکاری عہدیداران (آفیسر کیٹیگری) کی تصدیق اور اسکریننگ کے لیے اسپیشل ویٹنگ ایجنسی (ایس وی اے) کا درجہ دے دیا ہے۔

مذکورہ قوانین سول سرونٹ ایکٹ کے سیکشن 25 کی ذیلی دفعہ نمبر ایک اور ایس آر او 120 کے تحت وزیر اعظم کو سول بیوروکریسی کے لیے قوانین بنانے یا ترمیم کرنےکا اختیار دیتے ہیں، آئی ایس آئی کو ایس وی اے کے طور پر نوٹیفائی کرنے کی ہدایت 06 مئی 2022 کو وزیر اعظم آفس سے جاری کی گئی۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ میں عدالتی حکم عدولی ہوئی یا نہیں؟ آئی ایس آئی و دیگر سے جواب طلب

نوٹیفکیشن جاری کرکے حکومت نے ایک ایسے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے جو پہلے سے موجود تھا لیکن پروٹوکول کے حصے کے طور پر اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری عہدیداروں کو اہم عہدوں پر تعینات کیے جانے سے پہلے آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ان کے بارے میں اپنی رپورٹس بھیجتے ہیں۔

بیوروکریٹس کی ترقی کے وقت رپورٹس خاص طور پر سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کو بھیجی جاتی ہیں، یہ عمل جاری ہے حالانکہ اعلیٰ عدالتوں نے ماضی میں کچھ معاملات میں ایسی انٹیلی جنس رپورٹس کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ایسی کوئی قانونی شق نہیں جو سرکاری ملازمین کے لیے ایجنسی کی اسکریننگ کو لازمی قرار دے۔

عہدیدار کے مطابق نوٹیفکیشن کے باوجود آئی بی کی جانب سے معمول کے مطابق رپورٹس بھیجی جاتی رہیں گی۔انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت نے اب آئی ایس آئی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کو قانونی تحفظ دے دیا ہے اس لیے اب ان کو عدالتوں میں ایک جائز قانونی دستاویز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تاہم اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سابق سیکریٹری نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ اگرچہ وزیراعظم کے پاس بیوروکریسی کے لیے قوانین بنانے یا ان میں ترمیم کرنے کا اختیار ہے لیکن بہتر ہوتا کہ اگر سول بیوروکریسی آئی ایس آئی کو جانچ کے عمل کا باضابطہ چارج دینا چاہتی تھی تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ’تقرر، ترقی اور تبادلے (اے پی ٹی) کے قواعد‘ میں ترمیم کے لیے ایک قانونی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کرتی۔

انہوں نے کہا کہ قواعد میں ترمیم نہ کیے جانے تک محض ایک نوٹیفکیشن آئی ایس آئی کی رپورٹ کو قانونی حیثیت نہیں دے گا اور اسے عدالتی جانچ پڑتال کے دوران ایک جائز دستاویز کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کا آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کا دورہ، ‘داخلی سیکیورٹی’ پر جنرل فیض حمید کی بریفنگ

یہ بات قابل غور ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیز سے کلیئرنس نہ صرف سرکاری عہدیداروں کی ترقی کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہے بلکہ یہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے جج کی توثیق اور ترقی کے وقت چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان انٹیلی جنس رپورٹس پر غور کرتا ہے۔