نقطہ نظر

75واں کانز فلم فیسٹیول اور پاکستانی فلم 'جوائے لینڈ'

یہ واضح رہے کہ پاکستان سے کانز فلم فیسٹیول میں فلمیں ایک عرصے سے بھیجی جا رہی ہیں مگر ان کا بہت زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا۔

فرانس میں منعقد ہونے والا 75 واں کانز فلم فیسٹیول یورپ کے تین اور دنیا کے پانچ بڑے فلم فیسٹیولز میں سے ایک، جس کی مقبولیت پوری دنیا میں پہنچ چکی ہے

یورپ کے اہم ترین ملک فرانس میں ہونے والا یہ 'کانز فلم فیسٹیول' دنیا کے 5 بڑے فلمی میلوں میں سے ایک ہے، باقی 4 بڑے فیسٹیولز میں اٹلی کا وینس فلم فیسٹیول، جرمنی کا برلن فلم فیسٹیول، کینیڈا کا ٹورنٹو فلم فیسٹیول اور امریکا کا سنڈینس فلم فیسٹیول ہے۔

کانز فلم فیسٹیول کی ابتدا فرانس کے شہر کانز میں محدود پیمانے پر ہوئی۔ اس وقت کے سرکاری حکام چاہتے تھے کہ فرانس کا اپنا کوئی فلم فیسٹیول ہو کیونکہ اٹلی کے وینس فلم فیسٹیول میں بعض ممالک کے لیے متعصب رویہ روا رکھا جاتا تھا۔ اس وجہ سے فرانسیسی ایک الگ فلم فیسٹیول کرنا چاہتے تھے جس میں یورپی ممالک سمیت دنیا بھر کے فلم سازوں کی شرکت غیرجانبدارانہ طور سے ہوسکے۔

اسی سلسلے میں کوشش کرکے کانز فلم فیسٹیول کو پہلے محدود پیمانے پر شروع کیا گیا مگر پھر دوسری جنگِ عظیم میں فرانس کی شرکت کی وجہ سے اسے روکنا پڑا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد 1946ء میں اس کو باقاعدہ طور پر پھر سے شروع کیا گیا۔ رواں برس 75واں کانز فلم فیسٹیول منعقد کیا گیا جس میں پوری دنیا سے فلمی ستارے شامل ہوئے اور بین الاقوامی سینما کی اچھوتی اور منفرد فلمیں نمائش پذیر ہوئیں۔

رواں برس کا کانز فلم فیسٹیول

کانز فلم فیسٹیول کی ایک مختلف بات یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی فلمی شخصیت اس وقت تک شریک نہیں ہوسکتی جب تک اس کے پاس اس فلمی میلے کادعوت نامہ نہ ہو۔ اسی طرح جو فلمیں اس فیسٹیول میں بھیجی جاتی ہیں ان میں منتخب شدہ فلموں کے فنکار ہی فلمی میلے میں شریک ہوتے ہیں۔ فلمی میلے میں ایک طرف مقابلے کے تناظر میں فلمیں شامل ہوتی ہیں تو دوسری طرف بہت ساری فلمیں صرف اسکریننگ کی غرض سے پیش ہوتی ہیں تاکہ ان فلموں اور ان سے وابستہ فنکاروں کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔

اس فلم میلے میں مختلف اور عظیم فلمی شخصیات کے لیے بھی اسی طرح کا اہتمام کیا جاتا ہے جیسے اس مرتبہ ٹام کروز کی فلمی خدمات پر انہیں کانز فلم فیسٹیول کا سب سے بڑا اعزاز 'پام ڈو' اعزازی طور پر عنایت کیا گیا۔ اسی موقع پر ان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم 'ٹاپ گن ماورک' کی پذیرائی بھی کی گئی۔ ان کے علاوہ ہالی وڈ کے ایک اور معروف اداکار 'فاریسٹ وائیٹکر' کو بھی اعزازی طور پر 'پام ڈو' دیا گیا لیکن میڈیا میں ان کا تذکرہ کم ہوا۔

رواں برس 2022ء کے کانز فلم فیسٹیول کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہم جان لیتے ہیں کہ اس فلمی میلے کا خاکہ کیا ہے اور کس طرح اس میں فلموں کے مابین مقابلے ہوتے ہیں، اعزازات کی ترتیب اور اقسام کیا ہیں اور کون کون اس میں فاتح ٹھہرے۔

یورپ اور دیگر فلمی دنیا میں اس فیسٹیول کو طبقہ اشرافیہ کا فلمی میلہ سمجھا جاتا ہے جس میں شرکا کا تعین پیشگی دعوت ناموں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس فلم فیسٹیول کو ہنرمندوں کا فلمی میلہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں عام افراد شریک نہیں ہوسکتے بلکہ صرف فلمی صنعت سے وابستہ ہنرمند ہی شریک ہوتے ہیں۔

کچھ ایسے فلمی ستارے بھی ہیں جن کی شرکت کے لیے یہ فلمی میلہ ان کی راہ تکتا ہے۔ اس سال امریکی اداکار ٹام کروز کی مثال سب کے سامنے ہے، وہ 1986ء میں اپنی فلم 'ٹاپ گن' کے لیے کانز فلم فیسٹیول میں آئے تھے، پھر 36 سال بعد اسی فلم کے سیکوئل کی نمائش اور پروموشن کی غرض سے دوبارہ اس فلمی میلے میں شریک ہوئے۔ اس دوران کئی دہائیوں تک انہوں نے اس فلمی میلے کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا جہاں صرف شرکت ہی کئی فلمی ستاروں کا خواب ہوتی ہے۔

رواں سال منعقد ہونے والے کانز فلم فیسٹیول میں جس فلم کے پوسٹر کو آفیشل طور پر خراج تحسین پیش کیا گیا وہ امریکا کی فلم 'دی ٹرومین شو' تھی۔ یہ 1998ء میں ریلیز ہونے والی نفسیات پر مبنی ایک سائنس فکشن فلم ہے۔ اس فیسٹیول کی ابتدا جس فلم کی نمائش سے ہوئی اس کا نام 'فائنل کٹ' تھا۔ یہ فرانس کی ایک ایسی فلم ہے جس کو جاپانی فلم کے ریمیک کے طور پر بنایا گیا ہے۔

اس فیسٹیول کا سب سے بڑا ایوارڈ 'پام ڈو' جس فلم کو دیا گیا وہ سویڈین کی فلم 'ٹرائی اینگل آف سیڈنس' ہے۔ اس فلم کی کہانی ڈارک کامیڈی پر مبنی ہے۔ کورونا کی وبا سے تعطل کے بعد رواں برس ہونے والے فلم فیسٹیول میں شرکا کے جوش اور ولولے نے گزشتہ برسوں کی تنہائی کو دھواں بنا کر اڑا دیا۔

کانز فلم فیسٹیول کی جیوری اور اعزازات کی تفصیل

کانز فلم فیسٹیول کی 3 مرکزی جیوریز ہوتی ہیں جن میں دنیا بھر سے فلم سازوں اور فنکاروں کو شامل کیا جاتا ہے۔ یہ تینوں شعبوں میں الگ الگ جیوریز ہوتی ہیں جن کی ترتیب یہاں شامل کی جارہی ہے۔

ان میں سب سے اہم مرکزی فیچر فلموں کی جیوری ہے جس میں فلمی دنیا کے ممتاز اور اہم ترین شخصیات کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس جیوری میں ہمارے 2 پڑوسی ممالک کی شخصیات شامل تھیں، جن میں ایران کے فلم ساز اصغر فرہادی اور بھارت کی اداکارہ دیپیکا پڈوکون تھیں۔

ان کے علاوہ 'آزادانہ جیوریز' کے نام سے 3 مختلف شعبوں میں بھی فلموں کو شارٹ لسٹ کیا جاتا ہے جن کے نام انٹرنیشنل کریٹکس ویک، کوئیر پام اور لوئی ڈور شامل ہیں۔ اس طرح کُل ملاکر یہ 6 جیوریز ہیں جن میں سے سب سے اہم پہلی جیوری 'مین کمپیٹیشن' ہی ہے جو فیچر فلموں کے مابین مقابلوں کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے شعبے بھی ہیں جن میں مقابلے کے بغیر بہت ساری فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ان تمام شعبوں میں فاتحین کی فہرست درج ذیل ہے۔

فیچر فلمیں اور فاتحین

پام ڈو پرائز

75ویں سالگرہ پرائز (کانز فلم فیسٹیول)

مختصر فلمیں اور فاتحین

پام ڈو پرائز

اَن سرٹن ریگارڈ

کیمرہ ڈو پرائز

لی سینیف پرائز

ہائر ٹیکنیکل کمیشن پرائز

—تصویر:ٹوئٹر

ایوارڈز کی بندر بانٹ

اس فلمی میلے کے اعزازات کی طویل فہرست دیکھ کر بعض اوقات الجھن بھی ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ بہت سارے ایوارڈز بھرتی کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ 2 مرکزی شعبے ہوں یعنی فیچر فلم اور مختصر فلم اور ان میں 5 مرکزی اعزازات ہوں جن میں بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین اسکرپٹ رائٹر، بہترین اداکار اور بہترین اداکارہ کے ایوارڈ شامل ہوں لیکن یہاں صورتحال بہت مختلف ہے۔

اس فلمی میلے میں مختلف پہلوؤں سے بات بھی ہوتی ہے مثلاً ایران کی جس فلم کو یہاں منتخب کیا گیا ہے وہ اپنے ملک میں متنازعہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کی جس فیچر فلم کو خصوصی پرائز دیا گیا ہے وہ بھی اپنے موضوع میں متنازعہ ہے۔ صرف انعام مل جانا کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ جس فلم کو اعزاز دیا گیا ہے اس کی تخلیقی طور پر کیا اہمیت ہے اور وہ سینما کی دنیا میں اپنا کتنا حصہ ڈال رہی ہے۔ مگر عمومی طورپر دیکھا گیا ہے کہ متنازعہ یا پروپیگنڈا فلموں کو مغرب میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

پاکستانی فیچر فلم 'جوائے لینڈ' کا احوال

پاکستان سے منتخب ہونے والی فیچر فلم 'جوائے لینڈ' کے ہدایت کار صائم صادق اپنے فنکاروں کے ہمراہ میلے میں شریک ہوئے۔ ان فنکاروں میں ثانیہ سعید، ثروت گیلانی، راستی فاروق، علینا خان، علی جونیجو، سلمان پیرزادہ، سہیل سمیر و دیگر شامل تھے۔ اس فلم نے 2 اعزاز اپنے نام کیے۔ اس فلم کا مرکزی کردار ایک مخنث مرد ہے جس سے ایک شادی شدہ شخص کو محبت ہوجاتی ہے۔

اس فلم کے 18 پروڈیوسرز ہیں جن میں سے 14 غیر ملکی بشمول کئی بھارتی ہیں۔ پروڈکشن کا یہ خاکہ سمجھ سے باہر ہے کہ ایک فیچر فلم کے لیے اتنے سارے پروڈیوسرز، جن کی اکثریت غیر پاکستانی ہے۔ اس کے علاوہ فلم کا تکنیکی اسٹاف بشمول سینماٹوگرافی سب غیر ملکی ہے۔

اس کے باوجود بھی اگر ہم اس کو پاکستانی فلم تسلیم کرلیں تو اس کا موضوع کسی بھی طرح پاکستان کے سماج کا عکس پیش نہیں کرتا۔ ہمارے یہاں اور بہت سارے مسائل ہیں جن کو بیان کیا جاسکتا ہے لیکن ناجانے کیوں یہاں ایک عرصے سے مخصوص اور متنازعہ موضوعات کو چن کر ان پر فلمیں بنائی جارہی ہیں۔

پاکستان میں کوئی کتنا ہی اچھا کام کرلے مگر اس طرح کے فلمی میلوں یا بین الاقوامی ایوارڈز میں صرف مخصوص اور متنازعہ فلموں کو ہی جگہ ملتی ہے۔ ابھی حالیہ مثال ہے کہ پیرلل سینما کے تناظر میں'جاوید اقبال' بھی ایک عمدہ فلم تھی جو ہر طرح سے پاکستانی سماج کے مسائل کو بیان کر رہی تھی مگر برطانیہ کے ایک فلم فیسٹیول کے سوا کہیں اس کا نام و نشان بھی نہ ملا۔

پروپیگنڈے کا سینما

شرمین عبید چنائے کی مختصر دستاویزی فلمیں ہوں یا صائم صادق کی حالیہ مختصر فلم ان کے موضوعات متنازعہ اور مشکوک ہیں۔ بہرحال اس فلم کی کاسٹ میں سے ایک مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ ثانیہ سعید سے ہم نے خصوصی گفتگو کی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'یہ خوشی اور فخر کا موقع تھا، ہم ایسے ملک سے گئے جہاں سے عمومی طور پر فلمیں نہیں بھیجی جاتیں۔ اس فلم کی ہدایت کاری اور اداکاری کو بہت پسند کیا گیا کیونکہ اس فلم کا مقابلہ کئی دوسرے ممالک کی بہترین فلموں سے تھا'۔

یہ واضح رہے کہ پاکستان سے کانز فلم فیسٹیول میں فلمیں ایک عرصے سے بھیجی جا رہی ہیں مگر ان کا بہت زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا۔ فلم جوائے لینڈ میں معروف فلم ساز اور اداکار سلمان پیرزادہ نے بھی اداکاری کی ہے، انہی کی ایک فلم 'انارکلی، مائی بیوٹی فل' بھی کانز فلم فیسٹیول کا حصہ بنی تھی اور یہ 1962ء کی بات ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان سے فلمیں ایک طویل عرصے سے دنیا بھر کے فلمی میلوں میں بھیجی جاتی رہی ہیں۔

ریڈکارپٹ پر کانز فلم فیسٹیول میں یوکرائن سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون برہنہ حالت میں احتجاج کرتی ہوئی اندر داخل ہوگئی جس کو انتظامیہ نے قابو کرکے وہاں سے بے دخل کیا۔ اس کا احتجاج یہ تھا کہ یوکرائن اور روس کی جنگ میں روسی فوجی یوکرائن کی خواتین کا جنسی استحصال کر رہے ہیں جسے روکا جانا چاہیے۔ گلیمر سے بھرے ہوئے اس فلمی میلے میں یہ خبر دیگر چمکدار خبروں میں دب کر خاموش ہوگئی مگر یہ بھی ایک دلگیر واقعہ تھا جو اس فلمی میلے میں وقوع پذیر ہوا۔

حرف آخر

اس فلمی میلے میں بہت ساری فلموں کے پریمیئرز ہوئے۔ کچھ فلموں کی خصوصی نمائش ہوئی۔ فلم اسکولز کے طلبہ کی بنائی ہوئی فلمیں بھی شامل کی گئیں۔ کچھ کلاسیکی فلموں کا احیا کرتے ہوئے ان کو دوبارہ دکھایا گیا۔ دستاویزی فلموں کو بھی نمائش کا حصہ بنایا گیا۔ ہدایت کاروں کے تناظر میں بھی فلموں کو شامل کیا گیا۔

ہمیں بطور فلمی صنعت اپنے پڑوسیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے، چین، ایران اور بھارت کی فلمیں دیکھیں، وہ جس طرح کی فلمیں ان فلمی میلوں میں بھیجتے ہیں ان کا موازنہ اپنے موضوعات سے کیجیے پھر شاید کچھ اندازہ ہوسکے کہ ہمارے فلم سازوں کے ساتھ کیا مسائل ہیں۔

ہمارے ہاں کہانیوں کے انبار ہیں، مگر ناجانے کیوں ہمارے فلم ساز مکھی کی طرح غلیظ اور متنازعہ کہانیوں کا ہی انتخاب کیوں کرتے ہیں۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ دنیا بھر میں پروپیگنڈا پر مبنی سینما کو شہرت تو مل سکتی ہے مگر شاید عزت نہیں اور ہمیں تو صرف فلمی صنعت کی عزت ہی نہیں بلکہ عزتِ نفس بھی بحال کرنی ہے جو فی الحال مجروح ہے۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔