موڈیر نے پاکستان کے معاشی منظرنامے کو مستحکم سے منفی کردیا
موڈیز انویسٹرز سروسز نے بڑھتے ہوئے بیرونی خطرے اور ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کے معاشی منظرنامے کو مستحکم سے منفی کر دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ منظرنامے کو منفی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے بیرونی خطرات اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اضافی بیرونی مالی اعانت حاصل کرنے کی اہلیت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: بجلی کی قیمت میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری
موڈیز نے اندازہ لگایا کہ بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی خطرات میں اضافہ ہوا ہے جس سے بالخصوص بڑھتے ہوئے سیاسی اور سماجی خطرے کے تناظر میں کرنٹ اکاؤنٹ، کرنسی موجودہ اور پہلے سے معدوم زرمبادلہ کے ذخائر پر منفی دباؤ پڑا ہے۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے کمزور اداروں اور حکمرانی کی طاقت نے میکرو اکنامک پالیسی کی مستقبل کی سمت بالخصوص اس حوالے سے غیر یقینی صورتحال کو بڑھا دیا ہے کہ آیا پاکستان انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کو مکمل کرے گا اور ایک قابل اعتماد پالیسی کا راستہ برقرار رکھے گا جو مزید فنانسنگ سپورٹ کرتا ہے۔
تاہم موڈیز نے پاکستان کی بی3 مقامی اور غیر ملکی کرنسی جاری کرنے والے اور سینئر غیرمحفوظ قرض کی درجہ بندی کے ساتھ ساتھ (پی) بی3 سینئر غیر محفوظ درمیانی مدت کے نوٹ پروگرام کی درجہ بندی کی تصدیق کی، درمیانی مدت کے نوٹ نامزد یا مقرر کردہ ڈیلرز کے ذریعے سرمایہ کاروں سے مسلسل یا وقفے وقفے سے فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
بی3 کی درجہ بندی کی توثیق کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے موڈیز نے کہا کہ اس نے فرض کیا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت اپنا ساتواں جائزہ اس سال کے دوسرے حصے تک مکمل کر لے گا اور فنڈ کے ساتھ بات چیت برقرار رکھے گا جس کے نتیجے میں دیگر دو طرفہ اور کثیر جہتی شراکت داروں کی جانب سے اضافی مالی اعانت فراہم کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگائی کی شرح ڈھائی سال کی بلند ترین سطح 13.76 فیصد پر پہنچ گئی
انہوں نے کہا کہ موڈیز کا اندازہ ہے کہ پاکستان اگلے دو سالوں کے لیے اپنے مالیاتی خلا کو ختم کرنے کے قابل ہو جائے گا، بی3 ریٹنگ میں موڈیز کے پاکستان کی معیشت کی پیمائش اور مضبوط ترقی کی صلاحیت کا اندازہ بھی شامل کیا گیا ہے جو معیشت کو جھٹکوں کو جذب کرنے کی کچھ صلاحیت فراہم کرے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ کریڈٹ طاقتیں پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کی نازک پوزیشن، کمزور گورننس اور انتہائی کمزور مالیاتی طاقت بشمول انتہائی کمزور قرضوں کی برداشت کرنے کی صلاحیت کے مقابلے میں متوازن ہیں۔
موڈیز نے کہا کہ بی3 درجہ بندی کا اطلاق تھرڈ پاکستان انٹرنیشنل سکوک کمپنی لمیٹیڈ اور دی پاکستان گلوبل سکوک پروگرام کمپنی لمیٹیڈ کی حمایت یافتہ غیر ملکی کرنسی سینئر غیر محفوظ ریٹنگز پر بھی ہوتا ہے۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ مقامی اور غیر ملکی کرنسی والے ملک کی ریٹنگ کو بالترتیب بی اے3 اور بی2 سے کم کر کے بی1 اور بی3 کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی کرنسی کی حد اور خودمختار درجہ بندی کے درمیان دو درجے کا فرق معیشت میں حکومت کے نسبتاً بڑے نقوش، کمزور اداروں اور نسبتاً زیادہ سیاسی اور بیرونی خطرے کا باعث ہے۔
مزید پڑھیں: تیل کی قیمت میں 213 روپے اضافہ، صارفین کی مشکلات بڑھ گئیں
بیان میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی کرنسی کی حد اور مقامی کرنسی کی حد کے درمیان دو درجے کا فرق، نامکمل کیپٹل اکاؤنٹ کی تبدیلی اور نسبتاً کمزور پالیسی کی تاثیر کی عکاسی کرتا ہے جو کہ درمیانے بیرونی قرضوں کے باوجود مادی منتقلی اور تبدیلی کے خطرات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
بیرونی خطرے میں اضافے کا اندیشہ
ریٹنگ میں کمی کی وجوہات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے موڈیز نے کہا کہ اسے توقع ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ 2022 اور 2023 تک مصنوعات کی عالمی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے خاصا دباؤ میں رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جولائی 2021 میں رواں مالی سال کے آغاز سے لے کر اپریل 2022 تک مجموعی طور پر 13.8 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے جبکہ ایک سال پہلے کی اسی مدت میں 54کروڑ 30لاکھ ڈالر کا خسارہ تھا، مالیاتی کھاتوں میں مساوی آمد، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تیزی سے اضافہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی کا باعث بنا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اپریل کے آخر میں کم ہو کر 9.7 ارب ڈالر پر آ گئے ہیں جو محض دو ماہ سے بھی کم وقت کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
موڈیز نے پیش گوئی کی کہ موجودہ مالی سال کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ موجودہ مالی سال میں جی ڈی پی کے 4.5 سے 5 فیصد تک آئے گا جو حکومت کی توقعات سے قدرے زیادہ ہے، جیسے جیسے 2023 میں اشیا کی عالمی قیمتوں میں بتدریج کمی اور گھریلو طلب میں اعتدال آئے گا، موڈیز کو توقع ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 3.5 سے 4 فیصد تک محدود ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ریونیو 28 فیصد اضافے سے 54 کھرب روپے تک پہنچ گیا
موڈیز نے بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے بالخصوص بہت کم زرمبادلہ کے ذخائر کو دیکھتے ہوئے پاکستان پر اضافی بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
موڈیز نے کہا کہ اسے امید ہے کہ پاکستان اپنا آئی ایم ایف کا جائزہ مکمل کر لے گا اور مزید بیرونی فنانسنگ کو راغب کرے گا تاہم اگر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہا تو اسے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سیاسی خطرے میں اضافہ
ملک کے سیاسی نقطہ نظر پر تبصرہ کرتے ہوئے موڈیز نے کہا کہ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی غیر یقینی سیاسی صورتحال برقرار ہے، نیا حکمران اتحاد متعدد سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہے جس کے مختلف مفادات ہیں جس سے آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ کی صلاحیت سمیت کسی بھی قسم کی اصلاحات سے متعلق قانون سازی کا امکان مشکل ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ اگلے برسوں میں ہونے والے انتخابات کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل آمدنی میں اضافے کے اہم اقدامات کو مسلسل نافذ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی شرح سود سے حکومت کی پالیسی کے انتخاب میں تیزی سے رکاوٹ پیدا ہونے کا بھی امکان ہے کیونکہ سود کی ادائیگیاں پہلے ہی 40فیصد سے زیادہ ریونیو جذب کر لیتی ہیں۔
موڈیز نے دہشت گردی کو ملک کے لیے باعث تشویش قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران دہشت گرد حملوں کی زیادہ تعداد دیکھی گئی، زیادہ متواتر دہشت گردانہ حملے حفاظتی خدشات میں اضافہ کرتے ہیں جو سماجی خطرات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں، ساتھ ہی کاروباری حالات اور سرمایہ کاری کو محدود کر سکتے ہیں۔
'معاشی دھچکوں کو جھیلنے کی صلاحیت'
بی3 درجہ بندی کو برقرار رکھنے کے اپنے فیصلے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے موڈیز نے کہا کہ پاکستان کے بڑے حجم اور مضبوط ممکنہ ترقی نے اسے معاشی جھٹکوں کو جھیلے کی کچھ صلاحیت فراہم کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تقریباً 5 فیصد کی ممکنہ نمو جزوی طور پر 30 سال سے کم آبادی کے ساتھ ملک کی سازگار آبادی کی عکاسی کرتی ہے، اس کے باوجود پاکستان کی ممکنہ ترقی ساختی چیلنجوں کی وجہ سے محدود ہے جس میں کمزور گورننس اور کمزور مسابقت شامل ہے۔
بیان میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ملک کو ماحولیاتی صورتحال سے خطرہ ہے جو ہر سال ’تیزی سے کم ہوتے تازہ پانی کے وسائل‘ کے بڑے پیمانے پر استعمال اور بدترین موسمی واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
موڈیز نے کہا کہ اس نے اگلے مالی سال میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 6 فیصد سے کم ہو کر 4.2 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے، معاشی سرگرمیوں میں اعتدال بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی میں سختی کی وجہ سے گھریلو طلب میں کمی کی عکاسی کرتا ہے، اس نے کہا، تاہم حقیقی جی ڈی پی بتدریج بڑھنے اور مالی سال 2024 اور 2025 کے دوران 4.5 سے 5 فیصد تک پہنچنے کی توقع کی ہے۔
مزید پڑھیں: قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو گیس کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی، مصدق ملک
پاکستان کی مالیاتی طاقت کے بارے میں موڈیز نے کہا کہ یہ "بہت کمزور" ہے اور اگلے عام انتخابات سے قبل مالی استحکام کی توقع ہے۔
'کوئی حیران کن بات نہیں'
اٹلانٹک کونسل کے ساؤتھ ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے کہا کہ موڈیز کا فیصلہ ’کوئی حیرت کی بات‘ نہیں اور آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے حوالے سے حکومتی کے بات چیت کے طریقہ کار پر تنقید کی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کے ساتھ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ آئی ایم ایف جلد ہی کسی بھی وقت پاکستان کو کوئی مثبت خبر دے۔
دریں اثنا پی ٹی آئی نے موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس درآمد شدہ حکومت کا ہر دن ہمارے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے ریمارکس دیے کہ جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے یہ ہماری معیشت کے لیے ایک اور بڑا دھچکا ہے۔