سیاسی عدم استحکام نے پولیو پروگرام کو نقصان پہنچایا، رپورٹ
گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو (جی پی ای آئی) کے انٹرنیشنل مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) نے کہا ہے کہ حکومت میں ہونے والی تبدیلیوں نے ملک میں پولیو پروگرام کو اکثر شدید نقصان پہنچایا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مئی کے آخری ہفتے میں اپریل کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے آئی ایم بی نے پاکستان میں پولیو کے کیسز میں اضافے کو تحریک انصاف حکومت کی جانب سے پولیو پروگرام میں کی گئی ’ناپسندیدہ‘ تبدیلیوں سے جوڑا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایم بی فکرمند ہے کیونکہ 2023 پاکستان میں انتخابات کا سال ہوگا اور حکومت میں ہونے والی تبدیلیوں نے پاکستان میں پولیو پروگرام کو اکثر نقصان پہنچایا ہے۔
رپورٹ میں ملک کے چاروں صوبوں میں تاحال پولیو کے قطرے پینے سے رہ جانے والے بچوں کا ایک اور سنگین مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ ایک لامتناہی مسئلہ ہے جس پر ابھی تک سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان سے پولیو کے مزید 2 کیسز رپورٹ
آئی ایم بی نے مزید کہا کہ جی پی ای آئی کی قیادت بہت زیادہ خطرے والی آبادیوں اور پاک-افغانستان سرحد پر موجود اضلاع میں پولیو کا پھیلاؤ برقرار رکھنے کے قوی امکان کے بارے میں بھی فکر مند ہے۔
ان میں جنوب مشرقی افغانستان سے واپس آنے والے افغان بھی شامل ہیں جو افغانستان کے اندر اور شمالی اور جنوبی وزیرستان اور پاکستان کے ملحقہ اضلاع میں آمد و رفت کرتے ہیں۔
اپریل میں پاکستان میں پولیو وائرس سے متعلق صوتحال گزشتہ سال کی نسبت بہت زیادہ سازگار نظر آ رہی تھی۔
آئی ایم بی نے افسوس کا اظہار کیا کہ 2018 کے اوائل میں آئی ایم بی کو پولیو کے خاتمے کے لیے تعاون کے بیانات کے باوجود ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا، پروگرام میں تسلسل کو بری طرح متاثر کیا گیا، اس میں ایسی تبدیلیاں کی گئیں جو غیرمفید تھیں اور 2019 اور 2020 کے دوران پاکستان پولیو کے کیسز میں اضافہ ہوا۔
مزید پڑھیں: ڈبلیو ایچ او، پولیو کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کاوشوں کا معترف
رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایم بی اجلاس کے چند ہفتوں میں ملک کا سیاسی منظرنامہ ڈرامائی طور پر بدل گیا، سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپریل 2022 کے اوائل میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد معزول کر دیا گیا اور اس کے بعد ان کی جماعت کے زیادہ تر ارکان نے استعفیٰ دے دیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ عام انتخابات 2023 میں ہوں گے، امکان ہے کہ موجودہ حکومت اس وقت تک برقرار رہے گی حالانکہ ایسے حالات ہیں جن میں تبدیلی کا امکان بھی موجود ہے، پولیو پروگرام کے تسلسل میں وقفے کے مکمل مضمرات تاحال واضح نہیں ہیں۔
آئی ایم بی نے کہا کہ 2 نئے کیسز سامنے آنے سے پہلے تک پاکستان کے پولیو پروگرام کے کئی اہم تنظیمی اور گورننس فیچرز ملک کو ایک سال سے زائد عرصے تک پولیو وائرس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کا سبب بنے ہیں۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ اگر نئی حکومت اس حوالے سے حکمت عملی کے تسلسل کو یقینی نہیں بناتی ہے اور گزشتہ حکومت کی انتظامی حکمت عملی کی کلیدی خصوصیات کے مطابق اقدامات نہیں اٹھاتی تو پاکستان میں بڑے پیمانے پر پولیو کی واپسی کا امکان ہے۔
تاہم تشویش کی بہت سی دیگر وجوہات ہیں، آئی ایم بی نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق فعال ویکسینیشن مہم کے بعد اب تک رہ جانے والے بچوں کی تعداد، افغانستان کے ساتھ سرحد کے اس پار آبادیوں تک پہنچنے میں مشکلات اور جنوب کے کچھ حصوں میں عدم تحفظ ان وجوہات میں شامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی کارکردگی کے بارے میں مثبت امید متاثر ہورہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 15 ماہ بعد پولیو کا پہلا کیس رپورٹ
اس میں کہا گیا ہے کہ پروگرام کی کارکردگی میں خلا خاص طور پر جنوبی خیبر پختونخواہ میں تشویشناک ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی اور قومی پولیو ٹیموں کے ساتھ پاکستان کے بارے میں آئی ایم بی کی زیادہ تر بات چیت جنوبی خیبر پختونخواہ میں پولیو وائرس کے پھیلنے کے خطرات کے بارے میں خدشات پر مرکوز ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی وزیرستان میں ٹائپ ون پولیو وائرس کے 2 نئے کیسز سامنے آئے ہیں، رپورٹ کے مطابق یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا یہ 2 کیسز کسی بڑے سلسلے کا آغاز ہیں؟
رپورٹ میں عالمی ادارے کی جانب سے ’تاحال پولیو کے قطرے پینے سے رہ جانے والے بچوں‘ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا جو ملک کے چاروں صوبوں میں ایک عام مسئلہ ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں پہلی مرتبہ 12ماہ تک پولیو کیس رپورٹ نہ ہونے کا ریکارڈ
رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایم بی کی جانب سے پولیو پروگرام کی چاروں صوبوں کی ٹیموں میں سے ہر ایک سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی 3 اہم پریشانیوں کو بیان کریں، جواب میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے تینوں صوبوں میں ایک جیسا ردعمل سامنے آیا، جن میں تاحال پولیو کے قطرے پینے سے رہ جانے والے بچوں کی بڑی تعداد، آبادی کی نقل و حرکت کے خطرات، ضروری حفاظتی ٹیکوں کی کم شرح اور صفر ڈوز والے بچوں کی زیادہ تعدادشامل ہے۔
آئی ایم بی کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کی پولیو ٹیم نے افغانستان سے سرحد پار آبادی کی آمد کا بھی ذکر کیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ انکار اور تاحال رہ جانے والے بچوں کی وجوہات کی چھان بین ایک ضروری کام ہے جس کی سفارش آئی ایم بی کی جانب سے اپنے ابتدائی دنوں سے ہی ایسے وقت میں کیا جاتا رہا جب پولیو پروگرام کے کام میں اس طرح کے معیاری ڈیٹا کو مرکزی دھارے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔