پاکستان کو بدترین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کو جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے وہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے وقت یا 1998 کے جوہری تجربات کے بعد اقتصادی پابندیوں سے بھی بدتر ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے زیر اہتمام ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی غیر ایماندارانہ پالیسیوں کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ 2017 کے ایک ٹریلین روپے سے کم ہو کر رواں سال 500 ارب روپے سے بھی کم رہ گیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا اصل مسئلہ سیاسی نظام نہیں بلکہ آئین کے تقدس کو نہ ماننا ہے۔
ان کا یہ بیان 4 جون کو سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) کے آئندہ مالی سال کے لیے تقریباً 800 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی منصوبے (اے ڈی پی) کو حتمی شکل دینے کے لیے طے شدہ اجلاس سے صرف 2 روز پہلے سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: معیشت کو اب بھی چیلنجز درپیش ہیں، مشیر خزانہ
پچھلے 2 روز سے جاری ترقیاتی پروگراموں کے حتمی جائزے کے مطابق بڑے مالیاتی خسارے کی وجہ سے رواں سال کا وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 480 ارب روپے تک محدود ہے۔
قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کا اجلاس آئندہ سال کے ترقیاتی پروگرام کی منظوری کے لیے عارضی طور پر 7 جون کو شیڈول کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کی زیر قیادت این ای سی میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اتنے ہی وفاقی وزرا شامل ہیں جبکہ آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ خصوصی مبصر کے طور پر اجلاس میں شامل ہیں، وفاقی بجٹ 10 جون کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں ایسے سنگین چیلنجز درپیش ہیں جن کا ہم نے پہلے کبھی سامنا نہیں کیا، حتیٰ کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت یا جب ہم نے جوہری تجربات کرنے کے بعد پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں تب بھی ایسے چیلنجز نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: کیا چیلنجز کے باوجود ملکی معیشت پروان چڑھے سکے گی؟
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 75 برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چوتھی سہ ماہی میں ترقی کے لیے کوئی فنڈز نہیں ہیں اور حکومتی خزانہ خالی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشی ترقی کا دارومدار سیاسی استحکام اور حکومتی پالیسیوں کے تسلسل پر ہے، اس بات پر غور کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان میں آئینی اور جمہوری اصولوں کو مضبوط کیا گیا یا کمزور کیا گیا اور جمہوری اور آئینی عمل کیوں آگے نہیں بڑھا۔
وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ جنوبی ایشیا اور افریقہ کی دیگر اقوام نے اقتصادی اور ترقیاتی محاذوں پر پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا جو پاکستانیوں کے لیے گہری تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 1960 کی دہائی میں پاکستان کی برآمدات تقریباً 20 کروڑ ڈالر تھیں جو بڑھ کر 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ اسی عرصے میں جنوبی کوریا کی برآمدات 10 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 770 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: اشیا کی بڑھتی عالمی قیمتوں کے سبب معیشت کو نمو کے چیلنجز کا سامنا
احسن اقبال نے کہا کہ ملک میں ترقی کا پہیہ آگے بڑھانے کے لیے ہمیں سیاسی تقسیم اور محاذ آرائی کو ہنگامی بنیادوں پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کامیاب ممالک نے اپنی معیشت اور ترقی میں تبدیلی لانے کے لیے ایک متفقہ اور سوچی سمجھی حکمت عملی اپنائی، امید ہےکہ پاکستان بھی ایسے چیلنجز پر قابو پا سکتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے پالیسی کے تسلسل کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ ہم آزادی کے بعد سے اب تک ترقی کیوں نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ یوں گمان ہوتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں گھوم کر اس صورتحال پر واپس آ گئے ہیں جہاں سے ہم نے 1947 میں آغاز کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین، بھارت، بنگلہ دیش اور ملائیشیا جیسے ممالک چند دہائیاں قبل معاشی طور پر پاکستان سے پیچھے تھے لیکن اب وہ پاکستان سے آگے نکل چکے ہیں۔