پاکستان

پی ٹی آئی مظاہرین کےخلاف طاقت کے استعمال پر وضاحت کیلئے عہدیداران طلب

پولیس، دارالحکومت انتظامیہ کے متعلقہ افسران کو 31 مئی کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے اجلاس میں طلب کیا گیا ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے طاقت کے استعمال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے پولیس اور دارالحکومت کی انتظامیہ کے متعلقہ افسران کو 31 مئی کو ایوانِ زیریں کے کمیٹی روم میں بلالیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کے اراکین کے اجلاس میں بلایا گیا ہے جس کی صدارت سینیٹر محسن عزیز کر رہے ہیں۔

کمیٹی کے اراکین نے پی ٹی آئی مارچ کے شرکا کے خلاف طاقت کے استعمال اور سڑکیں بند کرنے کے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ پنجاب، انسپکٹر جنرل آپریشن (آئی جی پی) اسلام آباد، ڈپٹی انسپکٹر جنرل آپریشن (لاہور) اور ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد کو بلایا ہے۔

26 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت نے اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تو دارالحکومت کی طرف مارچ کریں گے۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کو ملک بھر میں مقدمات کا سامنا

مذکورہ تنبیہ کے پیشِ نظر پولیس نے اتوار کو ڈی چوک اور سری نگر ہائی وے پر کنٹینر لگا دیے تھے۔

ایک پولیس اہلکار کے مطابق مذکورہ مقامات پر پہلے سے ہی کنٹینرز لگے ہوئے تھے اور ڈی چوک کو سیل کر دیا گیا تھا۔

سڑکوں کی بندش کے انتظامات کرنا اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) کا حصہ ہے کیونکہ عمران خان نے اسلام آباد کی طرف ایک اور مارچ کی کال پہلے ہی دے دی تھی۔

کمیٹی کا اجلاس منگل کو 11 بجے ایوان کے کمیٹی روم نمبر ایک میں ہوگا۔

پاکستان تحریک انصاف نے 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے شرکا کو 3 بجے اسلام آباد پہنچنے کے لیے کہا تھا، اس وقت عمران خان خود بھی دارالحکومت پہنچنے والے تھے۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: عمران خان کا نئے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں قیام کا عزم

تاہم پنجاب اور دارالحکومت میں سڑکوں کی بندش کے سبب حالات تبدیل ہوگئے تھے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت دی تھی کہ پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنان اور رہنماؤں کو رہا کیا جائے اور سڑکیں کھولی جائیں، جس کے بعد عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت دی تھی تاہم اگلی صبح تک ایسے مناظر نظر نہیں آئے اور بالآخر مارچ ختم کر دیا گیا۔

پارٹی کے وہ کارکنان جو ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوئے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پارٹی کے کارکنان کی جانب سے متعدد درختوں کو نذر آتش کردیا گیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے آپ کو آنسو گیس سے بچا رہے تھے۔

اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق افسران سے جواب طلب کیا گیا ہے کہ انہوں نے غیر مسلح پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیوں کیا۔

علاوہ ازیں چھاپوں کے ذریعے پی ٹی آئی قیادت کے خلاف ’غیر قانونی‘ کریک ڈاؤن کیا گیا اور ان کے خلاف ’جھوٹے‘ مقدمات درج کرتے ہوئے لوگوں کو غیر قانونی طور پر کیوں گرفتار کیا گیا۔

راولپنڈی: پولیو ٹیم کے ساتھ بدسلوکی، کام سے روکنے پر مقدمات درج

حکومت نے منکی پاکس سے نمٹنے کیلئے ہائی الرٹ جاری کردیا

بھارت: پنجابی گلوکار و کانگریس رہنما سیکیورٹی واپس لیے جانے کے بعد قتل