اسلام آباد کے انتظامی افسران کے عدالتی اختیارات ختم کرنے کا بل سینیٹ سے منظور
سینیٹ نے عدلیہ اور حکومتی انتظامیہ کے اختیارات کو علیحدہ کرنے اور اسسٹنٹ کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور کمشنر اسلام آباد کے عدالتی اختیارت کو ختم کرنے کا بل منظور کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر عرفان الحق صدیقی کی جانب سے پیش کیے گیے بل 'ضابطہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 2022' کے تحت ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) 1898 میں ترمیم کی درخواست کی گئی ہے۔
یہ بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد عدلیہ اور حکومت علیحدہ ہوجائیں گے۔
عرفان صدیقی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک تاریخی دن ہے کیونکہ سینیٹ نے 124 سالہ پرانے سی آر پی سی میں ترمیم کا بل منظور کر لیا ہے، جو نوآبادیاتی قانون ہے۔
مزید پڑھیں: میڈیا اتھارٹی بل کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کی جائے گی، سینیٹر عرفان صدیقی
انہوں نے کہا کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل مقامی انتظامیہ کو حکمرانوں کی جانب سے مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، بدقسمتی سے پاکستان میں یہ قانون اب بھی نافذ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج یہ بل سینیٹ سے منظور ہوا ہے اور جلد ہی قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
سینیٹر نے کہا کہ اسلام آباد کے اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کسی کو بھی جیل میں بھیجنے کے اختیارت رکھتے ہیں جبکہ عدالت ایک علیحدہ شاخ اور خصوصی موضوع ہے، یہ اختیارات بیوروکریسی کے بجائے عدالتی افسران کے ماتحت ہونے چاہئیں۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنرز انتظامی افسران ہیں لیکن اسلام آباد میں ڈپٹی کمشنر انتظامی افسر کے ساتھ ساتھ جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیارات بھی رکھتا ہے۔
قبل ازیں پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضابطہ فوجداری میں نوآبادیاتی روح کو ختم کرکے آج آئین کی اہم ضرورت پوری ہوگئی ہے۔
بل میں اعتراضات اور وجوہات کے حوالے سے کہا گیا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 175 کی شق 3 کے مطابق آئین پاکستان کے نفاذ کے 3 سال میں عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کیا جائے گا، اس میعاد کو بعد میں بڑھا کر نفاذ سے 14 سال تک کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: میرے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا گیا، عرفان صدیقی
مزید بتایا گیا کہ آرٹیکل کے تحت عدلیہ آزاد اور حکومتی انتظامیہ سے علیحدہ ہوگی، اس قانونی نظام میں کچھ دفعات نافذ ہیں، جن سے خصوصی جوڈیشل مجسٹریٹس کو عدالتی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، جس کے باعث انتظامیہ انصاف کی غیر جانبدارای میں رکاوٹ ہے۔
خیال رہے کہ عرفان صدیقی کو 2019 میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اسسٹنٹ کمشنر کے حکم پر پولیس کو اطلاع دیے بغیر گھر کرایے پر دینے کی وجہ سے حراست میں لے کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
انہیں پولیس نے حراست میں لے کر اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کیا، جس نے ان کی ضمانت مسترد کرکے جیل بھیج دیا، تاہم چند دن بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے اس کیس کو سیاسی کیس قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ زیر موضوع گھر ان کے صاحبزادے کی ملکیت ہے۔
گزشتہ چند مہینے سے عرفان صدیقی اسلام آباد کے اسسٹنٹ و ڈپٹی کمشنرز کے عدالتی اختیار ختم کرنے کے بل کے حوالے سے سرگرم رہے ہیں۔