'ریاستی اداروں' پر مبینہ تنقید، سینئر صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج
صحافیوں عمران ریاض خان، صابر شاکر اور ارشد شریف کے خلاف مبینہ طور پر ریاستی اداروں پر تنقید کرنے اور بغاوت پر اکسانے کے الزام میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔
ڈان ڈاٹ کام کو موصول عمران ریاض خان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) ٹھٹھہ کے دھابیجی تھانے میں درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ(پی پی سی) کی سیکشن 131 (بغاوت پر اکسانا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 452 (دہشت گردی) اور 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) کے تحت درج کی گئی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے عمران ریاض خان کو مبینہ طور پر فوج اور اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز اور اشتعال انگیز زبان استعمال کرتے ہوئے سنا۔
یہ بھی پڑھیں: بول نیوز کے اینکر سمیع ابراہیم کے خلاف 'ریاست مخالف' نشریات پر تحقیقات کا آغاز
دوسری جانب اینکر پرسن ارشد شریف کے خلاف جمعہ اور جمعرات کے روز حیدرآباد اور کراچی میں ایف آئی آر درج کی گئیں۔
ارشد شریف کے خلاف درج ہونے والی ڈان ڈاٹ کام کو موصول ایف آئی آرزکی کاپیوں کے مطابق ان کے خلاف مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131، 153 اور 505 کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
شکایت گزاروں نے یوٹیوب چینل پر صحافی مطیع اللہ جان کے ساتھ گفتگو میں ارشد شریف کے تبصروں کا حوالہ دیا جس میں ارشد شریف نے مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی 'بے توقیری ' کی اور ایسے الفاظ کہے جن کے ذریعے سے 'فوج میں نفرت پھیلانے اور نفرت انگیز ماحول پیدا کرنے' کی کوشش کی گئی۔
دادو میں ایک اور ایف آئی آر جمعے کے روز تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131، 153 اور 505 کے تحت درج کی گئی، جس میں ارشد شریف اور اے آر وائی نیوز کے ان کے ساتھی صحافی صابر شاکر کو نامزد کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دونوں صحافیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ریاستی اداروں کے بارے میں "تضحیک آمیز زبان" استعمال کی گئی اور میر جعفر اور میر صادق سے مشابہت دی گئیں جبکہ یہ دونوں لوگوں کو فوج اور ریاستی اداروں کے خلاف اکسا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فوج، عدلیہ کے خلاف 'نفرت انگیز' مواد نشر کرنے پر ٹی وی چینلز کو تنبیہ
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں اٹک میں صحافی سمیع ابراہیم کے خلاف بھی تعزیرات پاکستان کی 505، 131 اور 499 (ہتک عزت) کی دفعات کے تحت ایسی ہی ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں دشمنی، نفرت پیدا کرنے یا نفرت کو بڑھاوا دینے یا مسلح افواج کے اہلکار کو اپنی ڈیوٹی سے بھٹکانے کی کوشش کرنے سے متعلق ہیں۔
ایف آئی آر اٹک شہر کے رہائشی اختر جاوید ایڈووکیٹ کی شکایت پر درج کی گئی تھی جس نے کہا گیا تھا کہ شکایت گزار نے سمیع براہیم کا یوٹیوب چینل "کینیڈین پاک نیوز" دیکھا جس میں ابراہیم نے ایک ویلاگ میں ریاستی اداروں کے خلاف سازش کی اور افواہیں پھیلائیں۔
صحافی ارشد شریف نے آج دعویٰ کیا کہ 4 صحافیوں کے خلاف ملک بھر کے مختلف تھانوں میں 'متعدد مقدمات' درج کیے گئے ہیں۔
جن صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں وہ عام طور پر پی ٹی آئی کے حمایتی سمجھے جاتے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مذمت کی ہے اور اسے 'سیاسی انتقامی کارروائی' قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی ریاستی اداروں کے خلاف آن لائن مہم چلانے والوں کےخلاف کارروائی، 8 افراد گرفتار
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں سابق وزیراعظم نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ حکومت 'جعلی ایف آئی آرز' کے پیچھے ہے اور یہ 'بالکل ناقابل قبول' ہے۔
عمران خان کا کہنا تھاکہ امریکی سازش کے ذریعے اقتدار میں لائی گئی امپورٹڈ حکومت کی جانب سے جھوٹے پرچوں کے ذریعے صحافیوں ارشد شریف، صابر شاکر، سمیع ابراہیم، عمران ریاض خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی شدید ترین مذمت کرتا ہوں، یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے پیر کے روز خبردار کرتے ہوئے ایسا مواد نشر نے سے روکا تھا جس میں ریاستی اداروں یعنی مسلح افواج اور عدلیہ کو بدنام کرنے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلح افواج کو ملک کے بہترین مفاد میں سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے، آئی ایس پی آر
پیر کے روز پیمرا کی یہ ہدایت اس سے قبل 9 مئی کواسی طرح کی ایک اور وارننگ کے بعد سامنے آئی تھی جس میں اس نے نجی الیکٹرانک میڈیا کو مسلح افواج اور عدلیہ کے خلاف مواد نشر کرنے سے خبردار کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ حالیہ دنوں میں ملک میں جاری سیاسی گفتگو میں پاکستان کی مسلح افواج اور اس کی قیادت کو ملوث کرنے کی تیز اور دانستہ طور پر کوششیں کی گئی ہیں، مسلح افواج کو ملک کے بہترین مفاد میں سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا تھا کہ اس طرح کی مہم میں کچھ سیاسی رہنما، چند صحافی اور تجزیہ کار بھی شامل ہیں جو عوامی فورمز، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سمیت مختلف مواصلاتی پلیٹ فارمز پر غیر مصدقہ، ہتک آمیز، اشتعال انگیز بیانات اور ریمارکس دیتے نظر آتے ہیں جو کہ انتہائی نقصان دہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج اس طرح کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتی ہے اور سب سے توقع رکھتی ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کریں اور مسلح افواج کو ملک کے بہترین مفاد میں سیاسی گفتگو سے دور رکھیں۔