پاکستان

'فتنہ عمرانیہ' کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑنا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

عمران خان سیاسی لحاظ سے ایک لاش ہے، ایک کروڑ لوگ بھی لاش کے اوپر کھڑے ہوجائیں تو اس کو زندہ نہیں کرسکیں گے، سربراہ پی ڈی ایم

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہےکہ عمران خان ایک فتنہ ہے، 'فتنہ عمرانیہ' نے اپنے پیروکار پیدا کرلیے ہیں، ہم نے اس فتنے کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑنا ہے۔

جے یو آئی کے تحت پشاور میں منعقدہ تقدس حرم نبوی ﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت کو یہ خاصیت حاصل ہے کہ اس نے اپنی 250 سالہ تاریخ میں آزادی، اسلام، حرمت رسالت ﷺ ، شرف انسانیت کا علم بلند رکھا ہے اور ہمارے اکابر و اسلاف نے جو علم بلند کیا تھا وہ علم آج بھی ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہر طرح کے حالات آئے، نشیب و فراز،اتار چڑھاؤ، آزمائشیں آتی رہیں لیکن استقامت کے ساتھ میدان عمل میں پرچم نبوی کو جھکنے نہیں دیا اور آج پھر وقت آگیا ہے کہ ہم دنیا کو یہ بتادیں کہ یہ پرچم نبوی ﷺ سربلند ہے اور سربلند رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: چیف ایگزیکٹو نے ایف آئی اے افسران کو تبدیل کیا، سپریم کورٹ نے سوموٹو کیوں لیا ؟ فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ جب مسجد اقصیٰ پر یہودیوں نے جارحیت کی تھی تو اس وقت ہماری جماعت نے ایک فقید المثال جلسہ کرکے واضح پیغام دیا گیا تھا کہ ہم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے میدان عمل میں فلسطینی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث چھیڑ دی تھی، اس کی حکومت کے آغاز میں اسرائیل سے ایک طیارہ اڑا اور پاکستان کی سرزمین پر اترا، کس رشتے کی بنیاد پر اترا تھا.

' اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم میں عمران خان ٹرمپ کے ساتھ تھا'

ان کا کہنا تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے جبر کی بنیاد پر کئی عرب ممالک کو امادہ کیا اس مہم میں عمران خان ٹرمپ کے ساتھ تھا، ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران امریکا میں موجود پاکستانی سفارتخانے کو انتخابی مہم کا مرکز بنا دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں کچھ اینکرز اسرائیل میں نظر آئے، انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل جانے کی منظوری عمران خان نے دی۔

انہوں نے کہا کہ جب وزیراعظم شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ مسجد نبوی گئے تو برطانیہ سے پی ٹی آئی کے کچھ رہنما انیل مسرت اور جہانگیر چیکو وہاں کس مقصد سے پہنچے تھے، ان سے پوچھا جائے کہ زندگی میں اس سے قبل مدینہ گئے، اس وقت وہ رسول اللہ کی حرمت کو پامال کرنے کے لیے مسجد نبوی میں ہنگامہ کرنے آئے۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ ساڑھے 3 سال میں جو گند ڈالا گیا، 3 دن میں نہیں اٹھایا جا سکتا، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا برطانیہ کا صدر بھی اس ہنگامے کو برپا کرانے کے لیے مدینہ آیا تھا جہاں اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

'شکوہ عدلیہ سے خاکم بدہن ہے ہم کو'

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم یہودیوں کے ایجنٹوں کو پاکستان اور پاکستان کی سیاست سے باہر نکالیں گے اور پاکستان کی سرزمین پر سیاسی طور پر دفن کردیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات کرتے ہیں ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، اپنی شکلیں دیکھیں پھر ریاست مدینہ کی بات کریں، یہاں اس بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا، عمران خان ہم پر تنقید کریں، گالی دیں، ہم برداشت کریں گے لیکن اس معاملے پر کوئی صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جائےگا، ہم تحمل و برداشت کے لوگ ہیں لیکن ناموس رسالت پر بپھرجانے والے لوگ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تھوڑا سے شکوہ بھی کروں گا، کہا گیا توہین مذہب پر کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا، تو پھر اقبال کی طرح اتنا تو کہہ سکتا ہوں کہ شکوہ عدلیہ سے خاکم بدہن ہے ہم کو، مانا کہ واقعہ سعودیہ عرب میں ہوا ہے، کوئی جج یہ کہہ سکتا ہے کہ وہاں کا واقعہ پاکستان کے دائر اختیار میں نہیں، لیکن مسئلہ وقوعہ کا نہیں کہ کہاں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ دل آزاری کہاں ہوئی ہے، دل آزاری پوری دنیا میں موجود امت مسلمہ کی ہوئی، دل آزاری پورے پاکستان کے مسلمانوں کی ہوئی اور دل آزاری کرنے والا وہاں پاکستانی تھا، لہذا میں پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے جب پاکستان کی سرزمین پر میری دل آزاری ہوئی ہے تو میں کہاں فریاد لے کر جاؤں گا اگر عدالت ہی میری فریاد نہیں سنے گی۔

انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا تقدس، ان کی عظمت، ان کے نور سے کائنات کے ذرے ذرے کو عزت حاصل ہے، آُپ نے اس کو مدینہ منورہ کا مسئلہ قرار دے دیا، جس پیغمبر ﷺ کی ذات، جس کا جسد اطہر جس مٹی سے وابستہ ہے اس خاک کا مقام عرش سے بلند تر، جہاں ان کے انوار سے کائنات کا ذرہ ذرہ منور ہے، مجھے یہ درس دیتے ہو کہ پاکستان میں اس توہین مذہب پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ اور فوج اپنا اپنا کام کریں، مولانا فضل الرحمان

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں توہین عدالت پر بات ہو سکتی ہے تو پھر اس سے بڑھ کر توہین رسالت پر بات ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں بانی پاکستان کی عزت پر بات ہو ، اگر ملک میں افواج پاکستان پر تنقید ہو، عدلیہ پر تنقید ہو تو قانون حرکت میں آتا ہے تو جناب رسول اللہ ﷺ بانی پاکستان سے بھی مقدم ہیں، عدلیہ، فوج سمیت دنیا کی ہر شخصیت سے مقدم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ساڑھے 3 پونے 4 سال تک عمران خا ن جس طرح کی حکومت کی، جس طرح یہودی لابی کے لیے کام کیا، جس طرح ٹرمپ کے ساتھ مل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مہم چلائی، جس طرح سے اسرائیل میں اپنے نمائندے بھیجے، جب عمران خان ٹرمپ کے لیے سفارتخانے کو انتخابی مہم کا مرکز بناتے ہیں تو پھر جو بائیڈن سے گلہ کرتے ہیں کہ وہ مجھے فون کیوں نہیں کرتا، عمران خان نے اپنی سیاست میں پاکستانی سفارت خانے کو کیوں ملوث کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب عمران خان کہتے ہیں کہ میں امریکا کے خلاف ہوں، ہم عمران خان کی اصلیت، خمیر، خبثت باطل کو جانتے ہیں۔

' آئینی دائرہ اختیار میں کردار ادا کرنے سے ادارے مضبوط ہوں گے'

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ عمران خان دھاندلی کرکے آیا ہے ، اس کو حکومت کرنے کا حق نہیں، مغربی میڈیا نے اس کو ایسے پیش کیا جیسے دنیا میں عقل و دانش صرف اس شخص کے پاس ہے، یہ ایک آئیڈل شخص ہے لیکن جب ساڑھے تین سال اس کو موقع دیا تو پتا چلا گیا کہ یہ کتنا نا اہل، نالائق بچہ ہے، اس کی نالائقی و نااہلی دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے لچے لفنگوں نے اپوزیشن رہنماؤں پر حملہ کیا، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ملک تو نہیں چلا سکے، اب شہر شہر جلسے کر رہے ہیں، اس میں بھی حکمت ہے، پہلے صلاحیتوں کے حساب سے نا اہل ثابت ہوا، اب جلسوں کے بعد ذہنی طور پر بیمار ثابت ہوگا، ایک درجہ ہوتا ہے باؤلے کا، یہ اسی طرح ثابت ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ عمران خان سیاسی لحاظ سے ایک لاش ہے، میں عمران خان کے پیروکاروں کو بھی بتانا چاہتا ہوں، اور اگر کہیں کسی ادارے کے اندر، کسی گھر میں کسی آنٹی کو تکلیف ہے، کسی اشرافیہ کو تکلیف ہے تو ان کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک کروڑ لوگ بھی اگر لاش کے اوپر کھڑے ہوجائیں تو اس کو زندہ نہیں کرسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو تجربہ گاہ نہ بنایا جائے، یہ ایک ملک ہے، وطن ہے، ہم اس کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، یہ مضبوط اس وقت ہوگا جب ادارے مضبوط ہوں گے، ادارے اس وقت مضبوط ہوں گے جب وہ آئین میں دیے گئے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کردار ادا کریں گے۔

انہوں نے کہا عمران خان نے جلسے میں کسی کی بیٹی کی بارے میں گھٹیا زبان استعمال کی، اپنی حلال بیٹی ہوتی تو کبھی ایسی بات نہیں کرتا، ہم پرامن سیاسی لوگ ہیں، ملک کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، ان سے اقتدار کیا چھنا، رمضان کے تقدس کو بھی نہیں دیکھا، کے پی میں اپنے اقتدار کے نشے میں مساجد پر حملے کیے، عبادات میں مصروف علما کی داڑھیاں نوچیں اور شرم نہیں آئی۔

یہ بھی پڑھیں: کسی کا باپ ہم سے اس حکومت کو جائز نہیں منوا سکتا، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکسان میں خونی جنگ نہیں چاہتے، یہ عمران خان کی زبان ہے جو کہتے ہیں کہ خونی الیکشن اور خونی سیاست ہوگی ، ان کی اس بات پر میں نے رانا ثنااللہ سے کہا کہ یہ خونی اور بادی کا علاج تو کرلو حکیم ثناللہ صاحب، ان کی خونی اور بادی کے لیے علاج کے لیے حکیم ثنااللہ کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان جب تک اقتدار میں تھا تو کہتا تھا کہ ریاست مدینہ، رحمت اللعالمین اتھارٹی اور جب اقتدار سے محروم ہوئے تو کہتے ہیں کہ باہر سے ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے، پی ٹی آئی نے اقوام متحدہ میں خط لکھا ہے کہ پاکستان میں ناموس رسالت کا قانون امتیازی قانون ہے اس کو ختم کرو۔

'سیاسی عدم استحکام کے لیے عمران خان کو لایا گیا'

انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ میرے خلاف بیرونی سازش ہوئی، کونسی سازش، ایک کاغذ لہرایا اور کاغذ میں کیا لکھا ہے کچھ نہیں پتا، جب دنیا نے کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، اس کاغذ میں کچھ نہیں، اگلے دن بیان دیا کہ مجھے جولائی میں پتا چل گیا تھا کہ (ن) لیگ میرے خلاف سازش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف کوئی سازش نہیں ہو رہی تھی ہم علی الاعلان میدان میں اس کی حکومت کے خاتمے کے لیے تھے اور خاتمہ کرکے رہے، ہم نے سازش کے ذریعے حکومت کا خاتمہ نہیں کیا، ہم نے میدان میں جنگ لڑکر تمہارے اقتدار کو چیلنج کیا اور گھر بھیجا۔

انہوں نے کہا کہ جب اس کی خط کی بات نہیں چلی تو کہتا ہے کہ قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے، کہتا ہے کہ بیان ریکارڈ کرا دیا ہے، اور وہ بیان کی کیسٹ رکھی کہاں ہے، ایک امریکا میں اور دوسری برطانیہ میں گولڈ اسمتھ کے گھر پر، کیونکہ ان کے لیے سب سے محفوظ مقامات وہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہم نےحکومت کا غرور خاک میں ملا دیا، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کاغذ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنی کارکرگی بتائیں، پاکستان کی معشیت کو تباہ کیا، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے عمران خان کو لایا گیا۔

انہوں نے کشمیر کو 3حصوں میں کیا،مقبوضہ کشمیر کو نریندر مودی کی جھولی میں ڈال دیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتا ہے کہ اگر فوج نہ ہو تو پاکستان 3 حصوں میں تقسیم ہوجاتا، 3حصوں کی وحی اس کے پاس کہاں سے آئی، اسکا تعاقب کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا عمران خان جن کو چور چور کہتا ہے اس پر ساری دنیا اعتبار کرتی ہے جبکہ اس صادق و امین پر کوئی کیوں اعتبار نہیں کرتا، ان کو دنیا پیسے دیتی ہے اس کو کسی نے ایک ٹکا نہیں دیا، دنیا نے عمران خان کو ایک احمق، بیوقوف اور نا اہل سمجھا اور کسی نے پیسا پاکستان بھیج کر ضائع کرنے کا رسک نہیں لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کو ٹرمپ کی مہم کا مرکز بنایا،15 امریکی اور یورپی شہری عمران خان کی کابینہ میں تھے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹیٹ بینک کا گورنر امریکی شہری کو تم نے بنایا، اس کے باجود امریکا کا ایجٹ یہ نہیں کوئی اور ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہر ادارہ اپنے دائرے میں کام سے کام رکھے تو کوئی جھگڑا نہیں، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے آج روپیہ کی قدر گری، ان کے ماہرین کہتے تھے کہ ڈالر 200 روپے کا ہوگا، 4 دن میں تو پالیسیز نہیں بنتیں، ان کی حکومت کا ڈالا ہوا گند 4 دنوں میں کیسے صاف ہوسکتا ہے، اس میں وقت لگے گا۔

'اداروں سے درخواست ہے یہ وقت اپنی اپنی سیاست کرنے کا نہیں'

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پاکستان کو عالمی طور پر تنہا کردیا، دوست ممالک کو ناراض کردیا، اب دنیا پاکستان پر اعتبار کرنے کےلیے تیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک فتنہ ہے، فتنہ عمرانیہ نے اپنے پیروکار پیدا کرلیے ہیں، ہم نے اس فتنے کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ملک میں معاشی بحران آتے ہیں تو ملک میں بغاوت ہوتی ہے مگر پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے وفا کا عہد کیا اور اس پر قائم رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ داعی کا لب و لہجہ حکمت و دانائی کا ہوتا ہے جبکہ منکر گربڑ کرتا ہے، اب ان کے لب و لہجے کو دیکھیں، جو ظرف کا اندر وہ وہی باہر آتا ہے، جو غلاظتیں اندر ہیں وہی باہر آتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہمارے پاس آؤ تو استعفیٰ لے کر آؤ خالی ہاتھ نہ آیا کرو، مولانا فضل الرحمٰن

ان کاکہنا تھا کہ میں اس وقت تمام اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ وقت اپنی اپنی سیاست کرنے کا نہیں ہے، اپنے محدود مفادات کے لیے لڑنا کا نہیں ہے، یہ قومی یکجہتی کا وقت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں فوج کی قیادت کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں، اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں آسے شکوہ تھا تو برملا شکوہ کر رہے تھے، ہم نے کبھی بات چھپائی نہیں ہے لیکن اگر آج آپ اپنے آئینی دائرہ کار میں اپنے فرائض کی طرف جانا چاہتے ہیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ پاکستان پر برا وقت نہ لائے، کوئی دشمن ہم پر حملہ نہ کرے ورنہ کوئی پھر یوتھیا فوجیوں کے ساتھ نظر نہیں آئے گا، ہم خاکسار آپ کے شانہ بشانہ پاکستان کےلیے کھڑے ہوں گے۔

' انصاف کے چہرے پر داغ ہے، عدلیہ پر سوالیہ نشان ہے'

ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں اپنا کام کریں، عدالت نے صدر کے ریفرنس پر کئی اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کردیا کہ آپ نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹ کیوں ڈالا، یہاں ہمارے انتہائی ادب و احترام کے ساتھ کچھ سوالات ہیں، اگر کوئی ممبر پر کسی بل کے مسئلے پر اپنی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتا ہے وہ الگ مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ کوئی وزیراعظم ایوان کی اکثریت کھو بیٹھے تو پھر وہ وزیراعظم نہیں رہے گا، آئین کہتا ہے کہ ایوان کی اکثریت، جب اکثریت اس کے پاس تھی تو اس کے اپنے ارکان جب اس کے خلاف جائیں گے تو ہی اکثریت اس کے خلاف جائے گی، اور کیا صورت ہوسکتی ہے، تو پھر عدم اعتماد کی شق ہی آئین سے نکال دیں، پھر تو ممبران اسمبلی کا عدم اعتماد کا استحقاق ہی ختم کردو۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک، جہدِ مسلسل کا نام ہے، ضروری نہیں کہ نتائج مل سکیں، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک ریفرنس کے اوپر ممبران کو ڈی سیٹ کیا جاتا ہے، دوسری جانب ایک رکن ایسا بھی ہے جس کے حاصل کردہ 65 ہزار ووٹ جعلی نکلے، اس کو الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کیا، عدالت نے اس کو حکم امتناع دیا، آخری وقت تک وہ اس اسٹے پر ڈپٹی اسپیکر رہا اور آج تک وہ اسٹے آرڈر پر رکن اسمبلی ہے، اس طرف کیوں نظر نہیں جاتی، اس طرف کی آنکھ کیوں بند ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف احتساب کے نام پر سیاست دانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، دوسری جانب کتنے سالوں سے فارن فنڈنگ کیس التوا کا شکار ہے، کہا گیا کہ اب روزانہ کی بنیاد پر اس کو سنا جائے گا، پھر 10 دن کے یے ملتوی کردیا، کیوں وقت دیا جارہاہے، یہ انصاف کے چہرے پر ایک داغ ہے اس کو دھونا پڑے گا، عدلیہ پر ایک سوالیہ نشان ہے جسے میں نے دور نہیں کرنا، بصد احترام اس کو عدلیہ نے دور کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا لوگ اس تمام صورتحال کو نہیں دیکھ رہے، کیا لوگ اس پر سوالات نہیں اٹھائیں گے، بی آر ٹی، مالم جبہ کیس پر حکم امتناع ہے، اس پر اسٹے آرڈر پر آڈر دیے جا رہے ہیں کہ اس کا احتساب نہیں کرنا، اگر ایسے مجرموں کو پاکستان میں اس طرح سے حوصلہ افزائی ہوتی رہی تو کس کے دباؤ پر ہو رہی ہے، کیا واقعی ہم ایک آزاد قوم کہلاتے ہیں۔

بلوچستان: ضلع شیرانی میں جنگلات پر لگی آگ مزید شدت اختیار کر گئی

انگلینڈ میں کیوی کرکٹ اسکواڈ کورونا کیسز سے متاثر

سندھ ہائی کورٹ کا سینما مالکان کو مقامی فلموں کیلئے 85 فیصد اسکرینز مختص کرنے کا حکم