بھارت: تاریخی مسجد میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کیلئے درخواستیں دائر
بھارت کی شمالی ریاست اترپردیش میں ہندو انتہاپسندوں نے تاریخی مسجد میں ہندوؤں کی نشانیوں کی موجودگی کا کھوج لگانے کی منظوری کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ آنے تک مسلمانوں کا داخلہ روکنے کے لیے عدالت میں درخواستیں دائر کردیں۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ریاست اترپردیش کے ہندو مذہبی قصبے متھورا کی مقامی عدالت نے نئی درخواستوں کی اجازت دے دی لیکن 2020 میں دائر کی گئی اس درخواست پر سماعت تاحال شروع نہیں کی جو 17 ویں صدی میں تعمیر ہونے والی شاہی عیدگاہ مسجد کے اندر سروے کرنے اور ویڈیو بنانے کی اجازت کی غرض سےدائر کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے گیانواپی مسجد میں بڑے اجتماع پر عائد پابندی ختم کردی
کیس سے جڑے وکیل مہیندرا پراتاپ کا کہنا تھا کہ ہمیں شک ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد کے اندر ہندوؤں کی نشانیوں کو ہٹایا جاسکتا ہے، اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ عدالت مسلمانوں کا داخلہ بند کردے۔
اترپردیش میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقے کی ایک اور عدالت نے رواں ماہ ہی ایک ٹیم کو وارانسی میں قائم تاریخی مساجد میں سے ایک مسجد کے اندر جائزہ لینے اور ویڈیو بنانے کی اجازت دی تھی۔
بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ روز وارانسی کی مقامی عدالت کی جانب سے گیانواپی مسجد میں مسلمانوں کو تعداد کم کرنے کے لیے دیا گیا حکم معطل کردیا تھا لیکن سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔
ہندو انتہاپسند گروپوں کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے وکیل رانجنا اگنیہوتری نے متھورا میں شاہی عیدگاہ مسجد کی قانونی حیثیت پر سوال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ مسجد کے اندر ہندو دیوتاؤں کی نشانیاں تھیں جو مندر کی تعمیر کے بعد رکھی گئی تھیں لیکن مسلمان حکمرانوں نے اپنی حکمرانی ثابت کرنے کے لیے اس کو تباہ کردیا۔
وارانسی میں سروے کے عمل سے منسلک افراد کا کہنا تھا کہ انہیں گیانواپی مسجد کے اندر ہندو دیوتا شیوا کی نشانیاں بڑی تعداد میں ملی تھیں لیکن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ایک فاؤنٹین ہیڈ کو مذہبی کشیدگی کے لیے غلط طریقے سے پیش کیا جارہا ہے۔
مسجد میں ہندوؤں کی نشانیوں سے متعلق خبریں سامنے آنے پر مغربی اور جنوبی بھارت میں ہندو گروپس نے دیگر مساجد میں بھی تلاشی لینے کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں: بھارت: ہندو نشانیاں سامنے آنے کے بعد مسلمانوں کو مسجد میں محدود اجتماع کا حکم
اورنگ آباد کی پولیس کا کہنا تھا کہ مغل حکمران اورنگ زیب کے مقبرے کے اطراف سیکیورٹی سخت کردی ہے کیونکہ خطے کی ایک سیاسی جماعت ایم این ایس نے مقبرے کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ گروپس کا خیال ہے کہ اورنگ زیب ہندو مخالف تھا۔
مذکورہ سیاسی جماعت نے حال ہی میں مہاراشٹر کی حکومت کو مسلمانوں کی اذان کی آواز کم کرنے کے لیے اقدامات پر مجبور کیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ مساجد کے سامنے ہندوؤں کے مذہبی رسومات ادا کی جائیں گی۔
دوسری جانب مسلمان سیاسی اور مذہبی گروپس کا کہنا تھا کہ وہ مسجد اور مقبرے کا تقدس پامال کرنے پر ہندو گروپس کے خلاف قانونی جنگ لڑیں گے۔
بھارتی پارلیمان کے رکن اور سیاسی جماعت کے علاقائی رہنما اسدالدین اویسی کا کہنا تھا کہ ہم (مسلمان) ہندوؤں کو ہمارے عقیدے اور ہماری مساجد کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔