جدید شہری زندگی، بڑھتی گرمی کی وجہ اور اس سے بچاؤ
2 سال قبل کراچی شہر میں شدید گرمی کے بعد ہونے والی بارش کے پہلے روز بچوں کے ساتھ بارش کے مزے لینے میں چھت پر گیا۔ بادل جم کر برسے اور ہر طرف جل تھل ہوگیا۔ مگر میں نے ایک بات محسوس کی کہ بارش کا پانی جو براہِ راست میرے جسم پر پڑ رہا ہے اس کا درجہ حرارت اس پانی سے کم ہے جو میری چھت پر جمع ہے۔
اس تجربے نے مجھے یہ احساس دلایا کہ ہمارے کنکریٹ سے بنے اسٹرکچر گرمیوں میں بڑے پیمانے پر گرمی جذب کرلیتے ہیں اور یہی چیز اربن ہیٹ یا اربن ہیٹ آئی لینڈ کہلاتی ہے۔ موسمی تبدیلیوں اور درجہ حرارت بڑھنے سے اربن ہیٹنگ بھی انسانی جانوں اور طرزِ زندگی کو بُری طرح متاثر کررہا ہے۔
پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ موسمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور عالمی سطح پر اس بات کی پیشگوئی کی جارہی ہے کہ موجودہ سال 2022ء دنیا کی تاریخ کا گرم ترین سال ثابت ہوگا۔
غیر ملکی ویب کاربن بریف کے مطابق پاکستان اور بھارت کو اس سال موسمِ گرما میں انتہائی درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے خطے کے لاکھوں افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق مارچ ہی سے درجہ حرارت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور اپریل کے آخر تک بھارت میں درجہ 47 ڈگری تک پہنچ گیا ہے جبکہ مئی میں پاکستان میں درجہ حرارت 49.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔جنوبی ایشیائی خطے میں شدید گرم موسم کی وجہ سے اموات میں اضافہ، فصلوں کی خرابی یا پیداوار میں کمی اور آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، جس کی وجہ سے غریب اور پسماندہ طبقات زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
محکمہ موسمیات نے مئی سے متعلق جو پیشگوئی کی تھی وہ ٹھیک ثابت ہورہی ہے اور سندھ میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ کراچی سمیت پورے سندھ میں گرمی اپنے عروج پر ہے اور کہیں کہیں پارا 50 ڈگری تک بھی پہنچ چکا ہے۔
موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو شدید ترین موسمی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ گوکہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان کو 10 بڑے ملکوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
پاکستان کو عالمی سطح پر پھیلائی جانے والی فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ بعض مقامی حالات بھی متاثر کررہے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں خصوصاً کراچی شہر میں اربن ہیٹنگ آئی لینڈ کی وجہ سے ہیٹ ویو کے اثرات دیگر علاقوں سے زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔
گنجان آباد شہروں میں گرمی کے اثرات دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں شہروں کی نسبت کم تعمیرات اور سبزہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ شہروں میں جدید شہری زندگی اپنانے سے جہاں لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوا ہے اور زندگی آرام دہ ہوگئی ہے وہیں گرمی کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔
لیکن یہ عمارتیں اور سڑکیں کس طرح درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں؟ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جیسے ہی سورج اپنی شعائیں روشنی اور گرمی کی صورت میں زمین کی طرف منتقل کرتا ہے تو ان شعاعوں کو زمین پر موجود ریت اس گرمی کو جذب کرلیتی ہے۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر چھوٹے، کچے اور مٹی سے بنے گھر اور کھلی زمین ہوتی ہے جسے زیادہ تر سبزے نے ڈھکا ہوتا ہے۔ لہٰذا دن کے وقت جو گرمی پیدا بھی ہوتی ہے اس کو جذب کرنے کے لیے جو سطح دستیاب ہوتی ہے وہ رات کے وقت جلدی ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔
مگر دوسری طرف شہری علاقوں میں کنکریٹ سے بنی عمارتوں کا ایک جال ہے۔ یہ عمارتیں کثیر منزلہ یعنی فلک بوس ہوتی ہیں اور اگر کم بلندی کی بھی ہوں مگر ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔ ان عمارتوں میں استعمال ہونے والا کنکریٹ اور ان کی سیاہی یا سیاہی مائل رنگت گرمی کو جذب کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح شہروں میں بنائی گئی پختہ گلیاں اور سڑکیں بھی گرمی کو اپنے اندر جذب کرکے محفوظ کرلیتی ہیں۔
دیہی اور شہری علاقوں میں ایک فرق سبزے کا بھی ہے، یعنی شہروں میں سبزہ خصوصاً درخت اور پودے کم ہونے کی وجہ سے فضا میں بخارات کو چھوڑنے اور ہوا کو ٹھنڈا کرنے والا قدرتی عمل ناکافی ہوتا ہے۔ خشک اور گرم موسمی حالات رات کے وقت بھی شہر کو ایک صحرا کی مانند گرم کردیتے ہیں جس کی وجہ سے شہر آسمان کے نیچے اپنے اردگرد کے مقابلے میں ایک گرم کرہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس گرم کرہ کی وجہ سے شہر کو اربن ہیٹ آئی لینڈ کہا جاتا ہے۔ اربن ہیٹ آئی لینڈ انتہائی درجہ حرارت کسی ایک دن کی گرمی بڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی وجہ مسلسل درجہ حرارت میں اضافے اور نمی میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ شہروں میں چھوٹی سڑکوں پر بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر سے بھی گرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ شہر میں جہاں بڑی اور بلند و بالا عمارتیں ہوتی ہیں وہاں اطراف کے مقابلے میں ہواؤں کی رفتار 30 سے 40 فیصد تک کم ہوگئی ہے اور گرم ہوا اوپر اٹھنے یا پھر بہہ جانے کے بجائے ایک وادی کی صورتحال اختیار کرتے ہوئے ایک مخصوص دائرہ میں گردش کرتی ہے۔ یہ گرم ہوا عمارتوں اور اردگرد کے ماحول کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتی ہے اور ہوا کے ایک جگہ پھنس جانے اور وادی میں ایک چکر کی صورت میں بہنے کی وجہ سے ہواؤں کے کم دباؤ کی وجہ سے شہروں میں ٹھنڈا کرنے والے بخارات کی بھی کمی ہوتی ہے۔ اس صورتحال کو (Urban Canyon Effect) کہتے ہیں۔
شہر کی عمارتیں اور دیگر پختہ انفرااسٹرکچر کے علاوہ انسانی نقل و حرکت اور صنعتی سرگرمی بھی اربن ہیٹ کو بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ صنعتوں سے نکلتا دھواں ناصرف فضائی آلودگی کو بڑھاتا ہے بلکہ گرمی میں بھی بے تحاشہ اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کا استعمال بھی گرمی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے اور اگر شہر میں ٹریفک جام ہو یا پھر سنگنلز پر گاڑیوں کو زیادہ دیر کھڑا رہنا پڑے تو ان سے نکلنے والا دھواں اس مقام پر اربن ہیٹ کے اثرات کو بڑھا دیتا ہے۔
اربن ہیٹنگ کے اثرات سے بچنے کے لیے لوگ بڑے پیمانے پر ایئر کنڈیشنگ کا استعمال کرتے ہیں اور ایک مخصوص جگہ کو اردگرد کے ماحول سے الگ کرکے ٹھنڈا کرلیتے ہیں مگر کیا ایئر کنڈیشنگ کی وجہ سے واقعی گرمی میں کمی ہوتی ہے؟ جواب ہے نہیں، بلکہ یہ عمل تو درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
دراصل ایئر کنڈیشن کے دو اہم حصے ہوتے ہیں، ایک اندرونی ہوتا ہے جہاں ٹھنڈی ہوا پھینکی جارہی ہوتی ہے مگر اس کا دوسرا حصہ بیرونی جانب ہوتا ہے جو فضا میں گرمی کا سبب بن رہا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیرونی حصے کی وجہ سے کم از کم ایک ڈگری سینٹی گرڈ درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ جبکہ ایئر کنڈیشن اور ریفریجریٹرز میں استعمال ہونے والی گرین ہاؤس گیسز فضائی آلودگی کا سبب بھی بنتی ہیں۔
مزید پڑھیے: اے سی اور ریفریجریٹر کس طرح ماحولیاتی تباہی کی وجہ بنتے ہیں؟
اربن ہیٹ آئی لینڈ اور بڑھتا درجہ حرارت انسانی زندگی اور جانوں کے لیے نہایت نقصاندہ ہے۔ شدید گرمی سے انسانی جان کو بھی شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے 9 ممالک میں جمع ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2019ء میں ہیٹ ویو سے 3 لاکھ 56 ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
شدید گرمی کی وجہ سے انسان کو اسٹروک، اعضا یا دماغ کے متاثر ہونے کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ پہلے سے سنگین بیماریوں جیسا کہ عارضہ قلب، ذیابطیس، گردوں اور سانس کے مریض بھی گرمی میں اضافے کے سبب جلد متاثر ہوتے ہیں اور ان کے مرض کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے شدید گرم موسم میں حاملہ خواتین، شیر خوار بچوں اور بوڑھے افراد کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، انہیں نہ صرف ٹھنڈے ماحول میں رکھا جائے بلکہ انہیں پانی کی کمی سے بچایا جائے۔
1980ء سے 2016ء تک دنیا میں ہیٹ ویو سے اموات کا جائزہ لیا گیا ہے، جس سے پتہ چلا ہے کہ ہیٹ ویو سے اموات میں 74 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
کاروبار کے اعتبار سے کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس شہر کو اربن ہیٹ آئی لینڈ کی بڑی قیمت چکانا پڑی ہے۔ شہری انفرااسٹرکچر اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ شہر شدید موسمی تبدیلی کے اثرات کو جھیل رہا ہے۔ یہاں اس سلسلے کا آغاز 2015ء میں ہوا جب 10 گرم ترین دنوں میں شہر میں 800 سے زائد اموات ہوئیں۔
کراچی شہر میں موسمی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافے کے حوالے سے سائنس ڈائریکٹ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے تحقیقاتی مقالے سے صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس مقالے میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی شہر کا اوسط درجہ حرارت 25.9 ڈگری سینٹی گریڈ یا 78.6 فارن ہائٹ ہے جو تقریباً 6 دہائی قبل 23.62 سینٹی گریڈ تھا۔ اس طرح گزشتہ 60 سال میں کراچی شہر کے اوسط درجہ حرارت میں 2.28 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی ہر دہائی میں درجہ حرارت میں 0.38 کی شرح سے اضافہ ہوا۔ لیکن پھر کراچی کا درجہ حرارت جس تیزی سے بڑھا ہے وہ عالمی درجہ سے 10 گنا زیادہ ہے۔ شہر میں سالانہ اوسط بارش 7.6 انچ یا 194 ملی میٹر ریکارڈ کی جاتی ہے۔
شہر میں شدید گرمی کے موسم میں ہیومیڈٹی یا نمی کا تناسب 58 سے 85 فیصد (اگست) تک پہنچ جاتا ہے۔ شدید گرمی اور نمی کی وجہ سے لوگ پسینے کا شکار ہوتے ہیں اور نمکیات میں کمی مختلف بیماریوں یا اموات کا سبب بھی بنتی ہے۔شہر میں کمزور رہائشی ڈھانچہ اور نکاسی آب کے نامناسب بندوبست کی وجہ سے دیگر بیماریوں کے علاوہ مختلف طرح کے انفیکشن پھیلنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ جبکہ فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس اور دل کی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی طلب سے متعلق سردیوں اور گرمیوں میں ایک بڑا فرق پیدا ہوتا ہے۔ گرمیوں میں ملک کے اندر بجلی کی طلب 25 ہزار میگا واٹ ہوجاتی ہے جبکہ سردیوں میں بجلی کی یہ طلب گر کر 12 ہزار میگا واٹ رہ جاتی ہے۔ یعنی صرف موسمی تبدیلی سے 13 ہزار میگاواٹ بجلی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ یعنی گرمیوں میں ٹھنڈک کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات جیسے پنکھے، ایئر کنڈیشن یا ریفریجریٹر کے لیے ملک میں 13 ہزار میگاواٹ بجلی کا استعمال کیا جاتا ہے۔
کیا اپ جانتے ہیں کہ بجلی کی بچت کے حوالے سے ایک اتھارٹی نیشنل انرجی ایفیشنسی اینڈ کنزرویشن اتھارٹی (NEECA) بھی قائم ہے۔ اس کی ویب پر ایک کیلکولیٹر دیا گیا ہے جس سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایئر کنڈیشن، روشنی، فین، فرج اور کمپیوٹر کے استعمال میں کتنی بجلی استعمال ہوگی اور کتنا بل بنے گا۔
اس میں کے الیکٹرک کے سوا تمام ڈیسکوز کا ڈیٹا موجود ہے۔ اس لیے کے الیکٹرک نے اپنی ویب سائٹ پر الگ سے یہ کیلکولیٹر دیا ہوا ہے
NEECA اور کے الیکٹرک کے کیلکولیٹر کے مطابق اگر ایک ٹن کے ایک اے سی کو یومیہ اوسطاً 8 گھنٹہ چلایا جائے تو بغیر انورٹر کا اے سی 12 یونٹس استعمال کرتا ہے جبکہ انورٹر والا اے سی 7.2 یونٹس استعمال کرتا ہے۔ اس طرح انورٹر والے اے سی سے بجلی کی 40 فیصد بچت ہوتی ہے۔
بجلی کا ایک یونٹ ایک کلو واٹ کے مساوی ہوتا ہے۔ یعنی اگر بغیر انورٹر والے 83 اے سی اور انورٹر والے 138 اے سی 8 گھنٹے استعمال کیے جائیں تو ایک میگاواٹ بجلی استعمال ہوتی ہے۔ یعنی اگر گرمیوں میں اور سردیوں میں بجلی کے استعمال کے فرق کو ایئر کنڈیشن میں استعمال ہونے والی بجلی سے تقسیم کیا جائے تو صرف اپنے اطراف کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہم تقریباً 11 لاکھ بغیر انورٹر اے سی اور 18 لاکھ انورٹر والے اے سی ہر روز 8 گھنٹے استعمال کرتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ایک ٹن کا ایک اے سی ایک ڈگری کی گرمی پیدا کرتا ہے تو آپ خود سوچ لیں کہ 18 لاکھ اے سی کتنی گرمی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہوں گے اور پاکستان کے شہری علاقوں میں اب اکثر مقامات پر اے سی استعمال کرنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
شدید گرمی کی وجہ سے بجلی کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے۔ بجلی کے تاروں کی گردش کی وجہ سے تاروں کا درجہ حرارت اردگر کے ماحول سے زائد ہوتا ہے جب اربن ہیٹ یا ہیٹ ویو کے دوران یہ تار بہت زیادہ گرم ہوجاتے ہیں تو ان کے کنیکشن پھگلنے اور بجلی منقطع ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ جبکہ گرمی سے گرڈ اسٹیشن، فیڈرز یا پی ایم ٹیز بھی ٹرپ کرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
اربن ہیٹ میں بجلی منقطع ہونے کی ایک بڑی وجہ سسٹم کا اوور لوڈ ہونا بھی ہے اور اس کی وجہ صارفین کی جانب سے لوڈ سے زیادہ بجلی کے آلات کا استعمال ہے۔ اس کے علاوہ کنڈے کے ذریعے بجلی چوری بھی گرمیوں میں ٹرپنگ کا سبب بنتی ہے۔ کنڈے سے بجلی چرانے والوں کے لوڈ کا تو کسی طرح بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ وہ کسی بھی دستاویز میں نہیں ہوتا ہے۔ پھر چونکہ کنڈے سے بجلی لینے والوں کو بجلی کے بل کی ادائیگی نہیں کرنی ہوتی لہٰذا وہ بجلی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے سسٹم اوور لوڈ ہوکر ٹرپ ہوتا ہے اور گرمی میں بجلی کی بندش مزید مسائل کا سبب بنتی ہے۔
اربن ہیٹنگ آئی لینڈ سے بچنے کے لیے جو بھی نئے شہر تعمیر کیے جائیں انہیں جدید خطوط پر اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ وہ گرمی کی شدت کو کم کرسکیں۔ اس کے علاوہ سائنسدان ایسے تعمیراتی مٹیریل پر بھی کام کررہے ہیں جو کم سے کم گرمی کو جذب کرے۔ لیکن یہ تو بات ہے نئے آباد ہونے والے شہروں کی مگر جو موجودہ شہر آباد ہوچکے ہیں ان میں گرمی سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟ اس حوالے سے چند تجاویز درج ذیل ہیں۔
اربن فاریسٹ اور کچن گارڈنگ
شہروں میں جہاں کھلی جگہ دستیاب ہو وہاں پر اربن فاریسٹ قائم کیے جائیں۔ سال 2015ء کی ہیٹ ویو کے بعد شہر میں گرمی کی شدت سے بچاؤ کے لیے درخت لگانے کا رجحان بلکہ ایک تحریک سی شروع ہوگئی ہے۔ اکثر تنظیمیں یا شہری اپنی مدد آپ کے تحت دستیاب جگہوں پر درخت لگا رہے ہیں۔ اس حوالے سے کراچی شہر میں متعدد مقامات پر اربن فاریسٹ کے منصوبے بھی جاری ہیں۔
سڑکوں کے کنارے، ساحل، ملیر اور لیاری ندی میں اربن فاریسٹ کے لیے درخت لگائے جارہے ہیں۔ آئندہ چند سال میں ان درختوں کے بڑھنے سے شہر کے درجہ حرارت میں بہتری لانے میں مدد ملے گی۔ شہر میں درختوں میں اضافے سے بخارات میں بھی اضافہ ہوگا اور گاڑیوں، فیکٹریوں اور دیگر ذرائع سے فضا میں شامل ہونے والے کاربن کو بھی جذب کرنے میں مدد ملے گی۔
اس حوالے سے پاکستان میں اربن فاریسٹ کی ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے جو لوگوں کو شہری جنگل بنانے کے لیے معاونت فراہم کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق ایک درخت 10 ایئر کنڈیشن کے مساوی ٹھنڈک، سالانہ 27 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرکے 260 پاؤنڈ آکسیجن فضا میں چھوڑتا ہے جبکہ ایئر کنڈیشنگ کی طلب کو 30 فیصد کم کرتا ہے۔
عمارتوں میں درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے سبزے کو بڑھانا ضروری ہے۔ عمارتوں کے اندر ایسے پودے رکھے جائیں جو سورج کی روشنی کو جذب کرسکیں اور فضا میں بخارات کی کمی کو دُور کرسکیں۔ اس کے علاوہ عمارتوں کے باہر درخت یا پودے لگائے جائیں جو دھوپ کی تمازت کو عمارت پر پڑنے سے بچائیں اور اس کو گرم نہ ہونے دیں۔ اب جدید ہوتی تعمیراتی ٹیکنالوجی نے درختوں کو عمارتوں کی چھتوں اور دیگر مقامات پر لگانے کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔
جن افراد کے پاس چھت دستیاب ہے یا فلیٹ کی بالکونی ہے، وہ وہاں چھوٹے پیمانے پر کچن گارڈن قائم کرسکتے ہیں۔ ایک طرف یہ پودے گرمی کی شدت کو کم کرنے میں مدد دیں گے دوسری طرف تازہ سبزیوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
سفید چھت
شہر میں عام طور پر تعمیر کی جانے والی عمارتوں میں استعمال ہونے والے کنکریٹ اور سیمنٹ کی چھتوں کی رنگت سیاہ یا سیاہی مائل ہوتی ہے۔ سیاہ اور سیاہی مائل رنگت سورج کی روشنی کو اچھی طرح جذب کرتی ہیں جس کی وجہ سے یہ عمارتیں بہت زیادہ گرم ہوجاتی ہیں اور اربن ہیٹنگ آئی لینڈ کا سبب بنتی ہیں۔
اس کا حل سائنسدانوں اور ماہرین تعمیرات نے یہ نکالا ہے کہ چھتوں کو سیاہ اور سیاہی مائل رنگ سے رنگنے کے بجائے چھتوں پر سفید رنگ کیا جائے۔ کیونکہ سیفد رنگ 50 فیصد سے زائد روشنی کو منعکس کردیتا ہے جس کی وجہ سے چھت کے ذریعے کم سے کم گرمی عمارت اور فضا میں داخل ہوتی ہے اور یہ ایئر کنڈیشن کی طلب کو بھی کم کرتا ہے۔
گرمی سے بچاؤ ذاتی حفاظت
شدید گرم موسم یا ہیٹ ویو کے دوران دن 11 بجے سے 3 بجے تک سڑکوں پر گھومنے سے صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور گرمی سے متعلق بیماریاں بڑھنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے کوشش کی جائے کہ ٹھنڈی اور سایہ دار جگہ پر رہا جائے اور اگر یہ دستیاب نہ ہو تو خود کو گرمی اور سورج کی براہِ راست روشنی سے بچنے کا انتظام کرکے ہی باہر نکلنا چاہیے۔ کوشش کریں کہ پانی کی بوتل ساتھ رہے اور وقفے وقفے سے پانی پیتے رہیں تاکہ گرمی کی وجہ سے اخراج ہونے والی پانی کی قلت کو دُور کیا جاسکے۔
شہری آبادی کے لیے اربن ہیٹنگ ایک سنگین مسئلہ بنتا چلا جارہا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے شہریوں کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے جبکہ شہری اور صوبائی انتظامیہ کو بلڈنگ کوڈز اور اربن فاریسٹ کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔