موبائل فون سے پہلے کی کچھ باتیں، کچھ یادیں!
ہم عمرو تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو اور نوجوانو تم یقین کرو یا نہ کرو لیکن کوئی 30 سال پہلے تک ہمارے ملک میں موبائل فون نہیں تھا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب انٹرنیٹ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ خبروں اور معلومات کے حصول کے لیے اخبارات اور کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔
چونکہ ویب سائٹس کی طرح اخبار میں کہیں ‘کمنٹ’ کی جگہ نہیں ہوتی اس لیے قارئین اپنے محبوب لیڈر اور سیاسی جماعت کے خلاف جاتی خبر شائع ہونے پر اخبار اور خبر دینے والے صحافی کو بس دل ہی دل میں یا زیرِ لب گالیاں دے سکتے تھے، یعنی مغلظات کی فوری رسائی کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔ رہیں کتابیں اور رسالے تو بے شک ان سے علم میں تو اضافہ ہوتا تھا مگر آدمی اس حقیقت سے آشنا ہوجاتا تھا کہ ہر فلسفیانہ قول خلیل جبران کا، ہر ناصحانہ شعر علامہ اقبال اور ہر پُرمزاح فقرہ مشتاق یوسفی کا ہونا ضروری نہیں۔
انٹرنیٹ پر طلوع ہونے والے سوشل میڈیا نے اس آشنائی کو ذہنی کوفت تو بنایا لیکن ان شخصیات کی عظمت میں کئی گنا اضافہ بھی کردیا، سو اب نئی نسل سوچتی ہے کہ کام کی باتیں تو بس یہ 3 حضرات کر رہے تھے، باقی ادیب، شاعر اور مزاح نگار ‘ایروپلین موڈ’ پر تھے یا ‘چارجنگ’ پر لگے تھے۔
مزید پڑھیے: اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں ’ویڈیو‘ کے سوا
جاننے اور معلومات بانٹنے کا ایک اور اہم وسیلہ بیٹھکیں، تھڑے اور گلیوں کے نکڑ تھے، جہاں خبریں اور معلومات سینہ بہ سینہ گوش بہ گوش آگے بڑھتی رہتیں، کوئی ‘کمیونٹی اسٹینڈرڈ’ رکاوٹ بنتا نہ شیطان اور مارک زکربرگ روک پاتے۔ لگتا ہے ان دنوں شیطان اتنا فارغ نہیں تھا۔
یہ وہی دور تھا جب تفریح کے لیے وی سی آر کرائے پر لائے جاتے اور پھر پورا خاندان رت جگا کرکے اونگھتے ہوئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یک کے بعد دیگرے 3 سے 4 بھارتی فلمیں دیکھ کر پورا کرایہ وصول کرتا تھا۔ گھر کا ایک فرد سینسر بورڈ بنا ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول تھامے چوکَنّا بیٹھا ہوتا، جہاں گھر میں رائج اخلاقیات کے منافی کوئی منظر آیا وہیں اس نے دل پر جبر کرکے ریموٹ کا بٹن دبایا اور اسے بھگایا۔
جی یہ وہی زمانہ ہے جب نجی چینل بھی نہیں تھے، لہٰذا سیاستدانوں کو کسی اینکر کے سہارے کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت آپس میں لڑنا پڑتا تھا۔ لے دے کر ایک پی ٹی وی تھا جس کی پالیسی تھی کہ جو دکھا رہے ہیں دیکھو ورنہ بھاڑ میں جاؤ۔ چند ڈراموں اور پروگراموں کو چھوڑ کر پی ٹی وی کی نشریات کا یہ حال تھا کہ بہت سے ناظرین نے بھاڑ میں جانے کو ترجیح دی۔
سرکاری چینل کی نشریات شام کو شروع ہوکر رات 12 بجے ختم ہوتیں۔ لوگ پی ٹی وی کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے تھے، ان ڈراموں کا ایسا سحر تھا کہ ناظرین خبرنامہ بھی ڈراما سمجھ کر دیکھتے تھے، اور ملک کے حالات جاننے کے لیے بی بی سی ریڈیو کا رخ کرتے تھے۔
یاد آیا، یہ وہی دن تھے جب فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسی سماجی ویب سائٹس نہ ہونے کے باعث سینہ بہ سینہ جھوٹ پھیلانے میں خاصا وقت لگ جاتا تھا اور ناراضی کے اظہار کے لیے ان فالو یا ان فرینڈ کرنے کے بجائے سامنا ہونے پر انجان بن کر، ضرورت پڑنے پر سائیکل اور استری جیسی اشیا اور مہمان آنے پر پنکھے اور چارپائی دینے سے صاف انکار کرکے اپنی خفگی ظاہر کی جاتی تھی۔
مزید پڑھیے: خبر لیجے زباں ‘پھسلی’
موبائل نہ ہونے کے باعث انگلیاں اتنی فارغ تھیں کہ آدمی پورے انہماک سے ناک کی صفائی اور پوری فرصت سے سر کی کھجائی کے بعد بھی یہ سوچتا رہ جاتا تھا کہ اب ان کا کیا کروں۔ بہت سی خواتین ایک دوسرے کے سروں سے جوئیں نکالنے کو انگلیوں کا بہترین مصرف جانتی تھیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ خدمت انجام دیتے ہوئے سروں میں لاتعداد جوئیں جوں کی توں چھوڑ دی جاتی تھیں، ایسا نہیں کہ یہ خواتین تفتیشی اور احتسابی اداروں کی طرح جوؤں میں امتیاز اور تفریق کی قائل تھیں، ان کی سوچ یہ تھی کہ سب مار دیں تو پھر کرنے کو کیا رہ جائے گا؟
قبل از موبائل دور میں کسی سے رابطہ کرنا، بلانا اور پیغام پہنچانا بڑا مشکل تھا۔ جب معاملہ محبت کا ہو تو یہ مشکل اور بڑھ جاتی تھی۔ رابطے کے ذریعے 3 تھے، گلی میں یا درس گاہ کے باہر انتظار، خط اور لائن فون۔ یوں سمجھو کہ جتنی دیر آج موبائل فون پر بات ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ وقت انتظار میں صرف ہوتا تھا، پھر ملاقات اتنی مختصر ہوتی تھی جتنا میسیج لکھنے میں وقت لگتا ہے۔ خط لکھنا ایک جھنجھٹ تھا، اور اس سے بڑھ کر محبوب کو متاثر کرنے کے لیے خط میں شعر ٹانکنا۔
ان دنوں شعر کے ساتھ اقبال اور فراز کا نام لکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا، کیونکہ نیم خواندہ ترین محبوبہ بھی جانتی تھی کہ
شیشی بھری گلاب کی پتھر سے توڑ دوں
خط کا جواب نہ ملے خط لکھنا چھوڑ دوں فراز
کسی طور بھی فراز کا شعر نہیں ہوسکتا اور اگر یہ فراز نے سن لیا تو وہ اپنا سر پھوڑ لیں گے یا لکھنے والے کا سر توڑ دیں گے۔
جہاں تک تعلق ہے لائن فون کا تو اس پر گفتگو کی اپنی مشکلات تھیں۔ یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ کن اوقات میں محبوب کے ابّا اور محبوبہ کے بھیّا گھر پر نہیں ہوتے، دورانِ کلام آواز دھیمی رکھنے میں مہارت لازمی تھی، ‘یوتھ’ کو اتنی آہستہ آواز میں بات کرتے دیکھ کر گھر والے سمجھتے تھے کہ شاید فون پر سرگوشی میں کہہ رہے ہیں ‘ہم نے حقیقی آزادی کی جنگ لڑنی ہے’، کال کے منتظر مقررہ وقت پر شکرے کی طرح فون کے ارد گرد منڈلا رہے ہوتے اور جوں ہی بیل بجتی بھوکے بھیڑیے کی طرح جھپٹ کر کال اٹھاتے، ایسے میں اگر محبوبہ کی جگہ خالہ محمودہ کی کال آجاتی تو ‘خالہ! امّی تو گئی ہوئی ہیں’ کا سیاسی بیان جاری کردیا جاتا۔ دل کو یہ اطمینان ہوتا کہ جھوٹ کس نے بولا امّی واقعی دوسرے کمرے میں گئی ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیے: جب اخبارات کا ’ضمیمہ‘ بھی آتا تھا
اس دور میں موبائل اسکرین نہ ہونے کی وجہ سے ساتھ بیٹھے لوگوں کو ایک دوسرے کے منہ دیکھنا ہوتے تھے، اب اگر یوں ہی منہ دیکھتے رہتے تو سامنے والا کہتا منہ کیا دیکھ رہے ہو، لہٰذا منہ دیکھے کو باتیں بھی کرنی ہوتی تھیں۔ یہ بے فکری نہیں تھی کہ دُور بستے رشتے دار اور دوست آن لائن نظر آرہے ہیں، لائیک اور شیئر کررہے ہیں اور اسٹیٹس لگا رہے ہیں تو خیریت ہی سے ہوں گے ان سے رابطہ کرنے کی کیا ضرورت ہے!
تب ہر کچھ عرصے بعد خط لکھ کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں آباد قرابت داروں کا حال جاننا پڑتا تھا۔ عید، بقرعید پر بھی سارے عزیزوں اور جاننے والوں کو ایک کلک سے مبارک باد دے کر نمٹا دینے کی سہولت میسر نہیں تھی، سو عیدکارڈ منتخب کرنے، خریدنے اور اس پر لکھ کر بھیجنے کے جھمیلوں میں پڑنا پڑتا تھا۔
تو بھیا یہ تھا قبل از موبائل دور، کتنا مشکل تھا نا، اب کتنی آسانی ہوگئی ہے، ارے اس آسانی میں تو آپ کو خوش ہونا چاہیے، یہ آنکھیں نم کیوں ہوگئیں!
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔