پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی آئینی شقوں کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین تکنیکی شقوں میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے وکلا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ایک بینچ کے سامنے استدعا کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے پیچھے موجود روح کو شکست نہیں ہونی چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منحرف اراکین صوبائی اسمبلی میں سے زیادہ تر نے مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز شریف کے حق میں ووٹ دینے کے اقدام کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پارٹی سے کوئی ہدایت نہیں ملی۔
انہوں نے طریقہ کار پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں کبھی بھی شوکاز نوٹس موصول نہیں ہوئے جو رکن کو منحرف قرار دینے کے لیے ایک لازمی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن میں منحرف اراکین سے متعلق درخواست دائر
ای سی پی کے تین رکنی بینچ کے روبرو پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے دلیل دی کہ آرٹیکل 63 اے کے پیچھے ایک مقصد سیاست سے انحراف کو ختم کرنا ہے۔
سینیٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر منحرف ہونے والوں کی ڈی سیٹ نہ کیا گیا تو یہ انحراف کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہوگا‘۔
پی ٹی آئی کے وکیل فیصل فرید نے کہا کہ 25 اراکین صوبائی اسمبلی کو 7 اپریل کو ایک ہوٹل میں ’وزیر اعلیٰ کے فرضی انتخاب‘ میں حصہ لینے پر شوکاز نوٹس جاری کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دینے سے انکار نہیں کیا اور جان بوجھ کر اپنی پارٹی کے مؤقف کو نقصان پہنچایا۔
کمیشن کی جانب سے معاملے کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کے منحرف ارکان سے متعلق الیکشن کمیشن کا بڑا فیصلہ
پی ٹی آئی کے منحرف اراکین نے اپنے جوابات میں انحراف کے اعلان کی صداقت اور ان کی نااہلی کے لیے اختیار کیے گئے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے۔
علیم خان نے اپنے جواب میں کہا کہ پارٹی سربراہ کی جانب سے انحراف کا اعلان ’قانونی اختیار کے بغیر‘ کیا گیا اور یہ قانون کی نظر میں باطل ہے۔
ایک اور رکن صوبائی اسمبلی ملک اسد علی نے اسی آرٹیکل کی مبینہ خلاف ورزی جس کی وجہ سے انہیں نااہلی کے مقدمے کا سامنا ہے کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ انحراف کے مجرم نہیں ہیں۔