پاکستان

‘حکومت تبدیلی کی سازش’ کی تحقیقات کیلئے بااختیار عدالتی کمیشن بنایا جائے، صدر مملکت

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خط کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ واقعات پر مبنی شواہد سے معاملے انجام کو پہنچ سکتا ہے، ایوان صدر

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس سے کہا ہے کہ حکومت تبدیلی کی مبینہ سازش کی تحقیقات کے لیے ‘ایک بااختیار عدالتی کمیشن تشکیل’ دے دیں، جس کا دعویٰ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا یہ جواب سابق وزیر اعظم عمران خان کے 30 اپریل کو صدر مملکت اور چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطابندیال کو لکھے گئے خط پر سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘دھمکی آمیز خط’ کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کی تحقیقات کیلئے صدر، چیف جسٹس کو خط لکھ دیا

سابق وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے ‘سازش’ کا یہ واضح ثبوت ہے۔

ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خط کے جواب میں صدر مملکت کا خط میں حکومت میں تبدیلی کے لیے مبینہ سازش کی تحقیقات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حالات و واقعات پر مبنی شواہد حاصل کرنے سے بھی معاملے کو انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘معاملے کی مکمل تحقیقات کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کو آگاہ کیا کہ وہ ان کا خط وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس کو بھیج رہا ہوں اور چیف جسٹس کو اس حوالے سے تحقیقات اور سماعت کے لیے ایک بااختیار عدالتی کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی ہے ’۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو وضاحت دینے اور معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے حالات پر مبنی شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی جانب سے مراسلے کی تحقیقات کی پیش کش، پی ٹی آئی نے مسترد کردی

صدر مملکت نے کہا کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان کی طرف سے بھیجی گئی سائفر کی کاپی پڑھی، جو جنوبی اور وسطی ایشیا کے امور کے لیے امریکا کے اسسٹنٹ سیکریٹری اسٹیٹ ڈونلڈ لو سے ہونے والی ملاقات کی باضابطہ سمری پر مشتمل تھی۔

انہوں نے کہا کہ سائفر کی رپورٹ میں مسٹر ڈونلڈ لو کے بیان میں خاص طور پر وزیر اعظم کے خلاف 'عدم اعتماد کی تحریک' کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں سنگین نتائج کا بھی ذکر ہے۔

صدر مملکت نے قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاسوں میں توثیق کی گئی کہ ڈونلڈ لو کا بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں ناقابل قبول اور صریح مداخلت کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بجا طور پر ڈی مارش جاری کیا، دھمکیاں خفیہ اور ظاہری دونوں اعتبار سے ہو سکتی ہیں اور اس خاص معاملے میں واضح طور پر غیر سفارتی زبان میں بات کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنے خط میں دھمکی پر ممکنہ ردعمل اور اثرات کا ذکر کیا، صدر مملکت

صدرمملکت نے بیان میں کہا کہ ایک خودمختار، غیور اور آزاد قوم کے وقار کو شدید ٹھیس پہنچی، معاملے کی تفصیلی جانچ اور تحقیقات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں لوگوں نے مبینہ طور پر اور یقین کے ساتھ کئی سازشوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے سازشوں کی تحقیقات بے نتیجہ رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دھمکی آمیز خط: فواد چوہدری کی وزارت قانون کا اضافی چارج سنبھالتے ہی کمیشن بنانے کی ہدایت

صدر عارف علوی نے کہا کہ عالمی سطح پر بھی سازشوں کی تصدیق عشروں بعد اعلیٰ درجے کے خفیہ دستاویزات جاری کرنے کے بعد ہوتی ہے یا لوگوں کو انکشافات یا لیک ہونے والے دستاویزار سامنے آنے پر علم ہوتا ہے، جس سے بھونچال آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طویل عرصے بعد خفیہ دستاویزات جاری کرنے تک ملکوں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے جو اس طرح کی غیر قانونی مداخلت سے ہوتا ہے۔

صدرمملکت کا کہنا تھا کہ حالات و واقعات پر مبنی شواہد حاصل کرنے سے بھی معاملے کو انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

کیبل گیٹ

قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے برطرف کیے جانے کے بعد سے عمران خان نے شہباز شریف حکومت کو 'امپورٹڈ' قرار دیتے ہوئے نامنظور کیا ہے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔

مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔

یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا ’دھمکی آمیز خط‘ سینیئر صحافیوں، اتحادیوں کو دکھانے کا اعلان

انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔

تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔

حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی، قومی سلامتی کمیٹی

31 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس (جس کی صدارت خود عمران نے کی تھی) کے بعد ایک بیان میں لفظ 'سازش' کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن 'واضح مداخلت' کا اعتراف کیا گیا، جس کے بعد ملک میں ایک مضبوط ڈیمارچ بھیجا جائے گا جس کا نام نہیں لیا گیا تھا۔

اس کے بعد سے عمران خان نے کئی عوامی خطابات میں انہیں اقتدار سے ہٹانے کی مبینہ سازش کا ذکلر کرتے ہوئے اس مراسلے کا حوالہ دیا۔

اپنے ایک خطاب میں عمران خان نے کہا کہ مراسلے میں پاکستانی سفیر اور امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا امور ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں مؤخر الذکر نے مبینہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔

14 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔

بعدازاں 22 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا 38واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی جس کے دوران بتایا گیا عمران خان کی حکومت کو ہٹانے میں کوئی غیر ملکی سازش ثابت نہیں ہوئی۔

پی ٹی آئی کے 25 اراکین پنجاب اسمبلی کی رکنیت معطل کرنے کی استدعا مسترد

خدشہ تھا کہ لہجے کی وجہ سے مسترد کیا جائے گا، دپیکا پڈوکون

جنوبی افریقہ کرکٹ نے مارک باؤچر پر نسلی تعصب کے الزامات واپس لے لیے