نقطہ نظر

پاکستانی سیاست میں سیاستدانوں کے اسکینڈل

آج سوشل میڈیا پر ڈھول پیٹنے والے غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ سیاسی شخصیات کے ذاتی پہلو دکھا کر اس کا سیاسی کیریئر تباہ کرسکتے ہیں

ان دنوں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی متوقع ویڈیو اسکینڈل کے بڑے چرچے ہیں، اور مخالفین خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے حامی بڑے پُرجوش نظر آرہے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ متوقع اسکینڈل خان کی ساری سیاست کا بازاری زبان میں دھڑن تختہ کردے گا۔

ایک حد تک خان کے حامی اگر ڈرے سہمے نہیں تو ‘دباؤ’ میں ضرور نظر آرہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جوابی حملوں کی تیاریوں پر بھی ڈیوٹیاں لگادی گئی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں قومی رہنماؤں اور ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے تاریخ بھری پڑی ہے، ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ 50 یا 60 کی دہائی میں آج کا مقبول ترین موبائل فون، واٹس اپ اور سوشل میڈیا جیسا مؤثر اور خطرناک ہتھیار نہیں تھا۔ اس زمانے میں اخبار ضرور ہوتے تھے، مگر ایک تو ان کی اشاعت محدود تھی دوسرا اگر سنسرشپ نہیں بھی تھی تو ایک حد تک پریس ایڈوائس کے ذریعے حکمرانوں کی خبریں ضرور کنٹرول کی جاتی تھی۔

لیکن آگے بڑھنے سے پہلے مہینہ تین پہلے پاکستان کے بہت ہی معزز فوجی گھرانے کے چشم و چراغ سابق گورنر سندھ اور ہماری مریم نواز بی بی کے ترجمان کی ویڈیو بھی خوب چلی تھی، مگر نہ تو قیادت نے ان سے سوال جواب کیا بلکہ اگلے دن ان گناہگار آنکھوں نے محترم محمد زبیر کو مریم بی بی کے پہلو میں کھڑے ان ویڈیوز کو جعلی قرار دیتے ہوئے سنا، اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ مبیّنہ ویڈیوز اپنا ریکارڈ پورا کرنے کے بعد اتر بھی گئیں۔

آج کے نوخیز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو شاید یہ معلوم بھی نہ ہو کہ اسکینڈل کی سیاست تو قیامِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بانی قائدِاعظم محمد علی جناح کے وزیرِاعظم نوابزادہ لیاقت علی خان بھی ایک بڑے لبرل موڈریٹ تھے اور ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان نو مسلم تھی۔ اس زمانے میں ساڑھی، غرارہ وغیرہ کا اتنا رواج نہیں تھا مگر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی شخصیت پر یہ بڑا سجتا تھا۔

پاکستان میں خواتین کی جو وومن گارڈز بنی بیگم رعنا اس کی بانی تو تھیں ساتھ سندھ کلب میں بڑے دھڑلے سے برج یعنی تاش کھیلتی تھیں۔ معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں برج یا تاش کھیلنا جوئے کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

یہ ساری تمہید اس لیے باندھی کہ تقسیمِ ہند کے بعد کا پاکستان کوئی کٹر مذہبی ریاست نہیں تھا، حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی منظم جماعت اسلامی کے حامیوں میں اتنا تحمل اور برداشت تھا کہ انہوں نے نہ کبھی نائٹ کلبوں اور شراب کی دکانوں پر حملے کیے اور نہ ہی کبھی پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم خاندان کو اس بنیاد پر مرتد قرار دیا۔

1956ء میں جو پاکستان کا پہلا آئین بنا وہ اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے۔ اس وقت صدرِ مملکت اسکندر مرزا تھے اور ان کی ایرانی نژاد بیگم ناہید اسکندر مرزا تو کراچی کے ایوانِ صدر میں ایرانین نائٹ کا جشن منانے کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتی تھیں، لیکن کبھی پڑھا اور نہ سنا کہ ان کے مخالفین نے ایوانِ صدر کے سامنے مظاہرہ کیا ہو یا کبھی جلسوں میں لعن طعن کی ہو۔

فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ایک شریف النفس مسلمان کی شہرت رکھتے تھے، مگر مذہبی اعتبار سے شراب نوشی کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے اے ڈی سی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ’جب ان کے خلاف عوامی تحریک زوروں پر تھی تو ایک دن ایوب خان کراچی کے پی سی ہوٹل میں ایک تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ صدر صاحب اتنے شدید ذہنی دباؤ میں تھے کہ تقریب میں جانے کے بجائے سیدھے بار میں گئے اور بلیک لیبل کے 3 پٹیالے چند منٹوں میں ہی انڈیل گئے۔ تقریب تو انہوں نے کسی طرح بھگتا دی مگر اسی رات ان پر دل کا شدید دورہ پڑا‘۔ یقیناً اس وقت رپورٹر بھی ہوں گے اور کیمرہ مین بھی مگر نہ کہیں خبر چھپی اور نہ ہی تصویر۔

صدر ایوب کے بعد یہ منصب سنبھالنے والے جنرل یحیٰی خان کے شب و روز تو بلبل ہزار داستان کا کلاسیکل درجہ رکھتی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت وہ بھی رنگینیوں میں مصروف تھے، مگر دسمبر 1970 کی اخبارات کی فائلیں نکال لیں، آج کے دور کے میڈیا سرخیلوں کے آباء نے اس کی ایک جھلک بھی ریکارڈ میں محفوظ نہ رہنے دی۔ ہاں مجھے ایک ہفت روزہ رسالہ الفتح ضرور یاد آرہا ہے جس نے سرِورق پر یہ تصاویر شائع کی تھی۔

بھٹو صاحب کے آتے آتے یقیناً پرنٹ میڈیا کی حد تک ایسے اخبارات اور جریدے آچکے تھے جنہوں نے یحیٰی خان کے رنگین روز و شب کو خوب بیچا۔ سیاسی اور مذہبی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ بھٹو صاحب کا پورا شجر نصب شائع کیا گیا کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ ایک ہندو کی اولاد تھے۔

آج سوشل میڈیا پر ڈھول پیٹنے والے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ سیاسی شخصیات کی زندگی کے ذاتی پہلو کی جھلکیاں دکھا کر اس کا سیاسی کیریئر تباہ و برباد کرکے رکھ دیں گے، تو معذرت کے ساتھ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اس کی ایک زندہ مثال تو محترم ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ اپنے جلسوں میں وہ سینہ ٹھونک کر کہا کرتے تھے کہ ہاں شراب پیتا ہوں مگر کسی کا خون نہیں پیتا۔

سرکاری ٹی وی پر یہ تقریر محفوظ ہوگی کہ اس بیان پر جیالوں نے وہ بھنگڑے ڈالے کہ الامان۔ عوام سے ان کی عقیدت و محبت دیکھیے کہ آج ان کی تیسری پیڑھی سندھ پر راج کررہی ہے اور ان کا نواسہ وزارتِ خارجہ کا عہدہ جلیلہ سنبھالا ہوا ہے۔

شریفوں کے اسکینڈلوں پر آیا تو ایک دفتر کھل جائے گا اور ہمارے محترم وزیرِاعظم میاں شہباز شریف کی بیگم تہمینہ درانی نے اپنے سابق شوہر و سابق گورنر غلام مصطفیٰ کھر پر ایک کتاب ’مینڈا سائیں‘ لکھی ہے، اور میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مہذب شریف گھرانہ ساتھ بیٹھ کر شاید چند اوراق بھی نہ پڑھ سکے۔

ذکر تو نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اب مینڈا سائیں کا ذکر آہی گیا ہے تو عمران خان کی سابقہ بیگم ریحام خان کی کتاب کو بھی میں نے تالے میں بند کرکے رکھا ہے کہ بچوں کی نظر سے نہ گزرے۔

اس سارے قضیے کو چھیڑ تو بیٹھا مگر سمیٹ نہیں پارہا کہ یوں بھی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ویڈیو تلوار سے زیادہ تیز دھار مگر اس قوم کی بدقسمتی دیکھیں کہ ماضی کے جن سارے قائدین کا ذکر کیا نہ صرف ان کی آل اولاد ان پر فخر کرتی ہے بلکہ ان کے ہزاروں لاکھوں حامی مخالفین کی زبان کھینچنے کے درپے ہوجاتے ہیں۔

سو ہمارے عمران خان کی سیتا سے لے کر جمائما تک کتنے ہی آڈیو ویڈیو اسکینڈل آئے، مگر خان صاحب کا جو قافلہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے اس کا ککھ نہیں بگڑے گا۔

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔