مقامی فلموں پر غیر ملکی فلم کو ترجیح دینے پر فلم پروڈیوسرز کا اظہار مایوسی
پاکستانی فلم پروڈیوسرز نے آرٹس کونسل میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے سنیما مالکان کی جانب سے عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی پانچ پاکستانی فلموں پر ایک غیر ملکی فلم ’ڈاکٹر اسٹرینج‘ کو ترجیح دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران ہم ٹی وی نیٹ ورک کی نمائندگی کرتے ہوئے بدر اکرام نے کہا کہ ہم نے متعلقہ حکام کو درخواست کی تھی کہ عید کے بعد پاکستانی فلموں کو تین دن دیے جائیں کیونکہ انگریزی فلم ہفتہ اور اتوار کو سنیما گھروں میں دکھائی جانی تھی۔
مزید پڑھیں: نئی پاکستانی فلم 'آرپار' کا پہلا پوسٹر جاری
انہوں نے کہا کہ وزارت کی جانب سے ہمیں مختلف ذرائع سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ہمیں یہ دن دیے جائیں گے۔
بدر اکرام نے کہا کہ ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بیرونی فلموں کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ہم کسی فلم پر بندش چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سنیما پیسہ کمائیں اور اگر وہ کمائیں گے تو فلمی کاروبار مزید بڑھے گا اور پاکستانی فلموں کو اس سے فائدہ حاصل ہوگا، ہماری گزارش یہ ہے کہ ہم نے پانچ فلمیں دی ہیں جنہیں بہت پذیرائی ملی ہے، بہت عرصے بعد پاکستانی فلموں نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور جمعہ کے روز 3 بجے تک ہم بہت اچھا جارہے تھے، لیکن اچانک تین بجے کے بعد 50 فیصد شوز منسوخ کر دیے گئے، ہم نہیں جانتے کہ آج کیا ہونے جارہا ہے۔
انہوں نے موشن پکچرز ایکٹ 1979 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت کوئی بھی سنیما 15 فیصد سے زیادہ غیر ملکی فلم نہیں دکھا سکتا۔
دم مستم فلم کے پروڈیوسر و اداکار عدنان صدیقی نے کہا کہ بطور پروڈیوسر یہ ان کی پہلی پیشکش تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اپنی عمر بھر کی کمائی کے ذریعے فلم کو سلور اسکرین پر صرف اس لیے پیش کرتے ہیں کہ یہ ہمارا جنون ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مجھے اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہیے، اگر مجھے اس کے بدلے میں جو میں نے سرمایہ کاری کی ہے وہ مل جائے تو یہ میرے لیے بہت بڑی بات ہوگی، لیکن ایسا نہیں لگتا، اس غیر ملکی فلم نے پہلے ہی ایڈوانس بکنگ کے ذریعے بڑی رقم کمالی تھی، لہٰذا اگر اسے تھوڑی دیر بعد ریلیز کیا جاتا تو بھی اس نے وہی ہجوم اپنی طرف متوجہ کیا ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: چار پاکستانی اداکار صلاح الدین ایوبی ڈرامے کی کاسٹ میں شامل
انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف ایک ہفتے کے لیے اس فلم کی تاخیر کا کہا تھا، ہمارا سنیما صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب آپ ہمیں سپورٹ کریں۔
ندا یاسر کا کہنا تھا کہ فلم ’چکر‘ بنانے کے لیے انہوں نے اور ان کے شوہر یاسر نواز نے پیسے جمع کرنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری چوتھی فلم تھی اور ہم نے یہ سوچ کر فلم بنائی تھی کہ اگر ہم نے جو سرمایہ اس فلم میں لگایا ہے وہ بھی مل جائے تو ہم ایک بار پھر نئی فلم بنانے کے لیے سرمایہ لگائیں گے، مگر جمعہ کو کچھ سنیما گھروں سے ہماری فلم کو جلد ہی ہٹادیا گیا۔
فلم ’چکر‘ کے ہدایت کار یاسر نواز نے کہا کہ انہوں نے اپنی فلم بنانے کا آغاز عالمی وبا کورونا سے کچھ دن پہلے کیا تھا اور کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ عالمی وبا کتنے عرصے تک چلنے والی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ تین چار دن کا نقصان برداشت کرتے ہیں اور مزید فلم نہیں بناتے مگر پھر ہم نے سوچا کہ اگر ہم فلم نہیں بنائیں گے تو انڈسٹری آگے کیسے بڑھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم فلموں کی تشہیر کے لیے بہت زیادہ کام کرتے ہیں تاکہ لوگ سنیما گھروں تک پہنچ سکیں، اسی طرح ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور ترکی کا سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی پر ڈراما بنانے کا اعلان
انہوں نے مزید کہا کہ کسی شخص نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ہماری فلم دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدا اور جب وہ سنیما گئے تو انہیں بتایا گیا کہ یا تو وہ ٹکٹ کے پیسے واپس لیں یا پھر بیرونی فلم دیکھیں۔
فلم ’پردے میں رہنے دو‘ کے ہدایت کار وجاہت رؤف نے میڈیا کو بتایا کہ جمعہ کی روز سنیما گھروں میں 453 شوز تھے جن میں سے 220 غیر ملکی فلموں کو دیے گئے جبکہ پاکستانی فلموں کو 10 سے 12 فیصد اسکرین پر موقع ملا۔
اداکار جاوید شیخ نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے گزارش کی کہ وہ فی الفور کارروائی کریں اور پاکستانی فلم انڈسٹری کو بچائیں۔
انہوں نے کہا کہ ’آج ہی کارروائی کریں، مریم اورنگزیب کو کال کریں اور معاملے سے متعلق دریافت کریں، ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ پاکستانی فلموں کو تین روز سنیما سے نوٹس کے بغیر ہٹادیا جائے‘۔
اس موقع پر امجد رشید، شازیہ اور احمد شاہ نے بھی بات کی۔
یاد رہے کہ عیدالفطر پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلموں میں ’گھبرانہ نہیں ہے، چکر، پردے میں رہنے دو، دم مستم اور تیرے باجرے دی راکھی‘ شامل ہیں۔