’عورت ہوں یہ بھول جائیں، بحیثیت انسان میری آزادی چھین لی گئی‘
افغان خواتین نے عوامی مقامات پر برقع پہننے کے طالبان کے احکامات پر مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’قید‘ کے مترادف قرار دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی خبر کے مطابق افغانستان کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ہفتے کے روز اس حکم کی منظوری دی تھی، جس کے بعد ملک میں دی گئی کچھ آزادیوں کو طالبان کی طرف سے مسلط کردہ سخت حکمرانی کی طرف دھکیلنے کا خطرہ ہے جب وہ 1996 سے 2001 تک اقتدار میں تھے۔
مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان نے اپنے سخت ناقد معروف پروفیسر کو 4 روز بعد رہا کردیا
یاد رہے کہ طالبان کا یہ عمل حکومت میں آنے کے بعد ’آسان حکومت‘ سے متعلق عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔
افغانستان کی سابق حکومت میں ملازمت کرنے والی ایک سماجی کارکن تہمینہ تہم، جنہوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی نوکری گنوا دی تھی، نے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے قید رکھا گیا ہے، میں آزاد نہیں رہ سکتی، میری سماجی زندگی طالبان کی طرف سے محصور کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ایک عورت یہ بات بھول جائیں مگر ایک انسان ہونے کے باوجود بھی میری آزادی چھین لی گئی ہے۔
طالبان رہنما کا جاری کردہ فرمان اس بات پر زور دیتا ہے کہ حکومت میں نوکری کرنے والی خواتین اگر ان کے جاری کردہ ’احکامات‘ پر عمل نہیں کریں گی تو ان کو نوکری سے فارغ کردیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ اگر نوکری کرنے والے مرد حضرات کی بیٹیاں اور بیویاں بھی احکامات پر عمل نہیں کریں گی تو ان مرد حضرات کو بھی نوکری سے فارغ کردیا جائے گا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے حکام نے اس حکم نامے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے طالبان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان مزید ’تشویش‘ پیدا ہو سکتی ہے۔
تاہم اتوار تک کابل میں طالبان رہنما کے احکامات پر عمل کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے کیوں کہ متعدد خواتین کو سڑکوں پر بغیر چہرے ڈھانپے دیکھا گیا تھا۔
مغربی شہر ہرات میں، جسے افغان معیارات کے مطابق لبرل تصور کیا جاتا ہے، وہاں کی رہائشی فاطمہ رضائی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی خواتین اب منحرف ہو چکی ہیں اور زبردستی کی گئی تبدیلیوں کو قبول نہیں کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کا خواتین کو عوامی مقامات پر برقع پہننے کا حکم
انہوں نے کہا کہ ’آج کی خواتین وہ نہیں جو 20 برس پہلے تھیں، اب وہ مضبوط اور ثابت قدم ہیں اور وہ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
لیکن افغانستان کے جنوبی شہر قندھار، جو طالبان کی اصل طاقت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے اور طالبان رہنما اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ بھی وہیں مقیم ہیں، وہاں خواتین کو برقع پہنے دیکھا گیا ہے۔
کمزور نقطہ
20 سالوں میں طالبان کے دو اقتدار کے درمیان لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی گئی تھی اور خواتین تمام شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے کے قابل ہوئیں، حالانکہ کافی سماجی رکاوٹیں اب بھی ملک میں دی گئی آزادیوں میں رکاوٹ ہیں۔
مگر طالبان کے واپس آنے کے بعد انہوں نے تمام سخت پابندیاں نافذ کردی ہیں جس میں خواتین کو سرکاری نوکری کرنے سے روکنا، میٹرک تعلیم حاصل کرنا اور اپنے شہروں سے باہر اکیلے سفر کرنے کی پابندی شامل ہے۔
تہمینہ تہم نے مزید کہا کہ نئے فرمان کا خواتین کی ذاتی اور کام کرنے والی زندگی پر بہت منفی اثر پڑے گا، انہوں نے کہا کہ ان کی بہن کو اس وقت تعلیم چھوڑنا پڑی جب ان کی یونیورسٹی نے انہیں لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ کلاس میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا، بہت سے لوگ سخت جدوجہد کے بعد حاصل آزادیوں کو واپس لینے پر ناراض ہیں۔
ہرات کے ہسپتال میں کام کرنے والی ایک دائی عزیتا حبیبی نے کہا کہ اسلام میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ عورتوں کے ہاتھ اور چہرے کو ڈھانپنا چاہیے؟
لیکن اخوندزادہ کے فرمان نے بہت سی خواتین کو اپنے مرد سرپرستوں کی حفاظت کے لیے پریشان بھی کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کردی
ایک سابق این جی او کارکن لیلیٰ سحر، جنہوں نے اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک فرضی نام دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں تک کہ میں نے خود کو مکمل ڈھانپنے والا حجاب پہننے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ میرے خاندان کے مردوں کو سزا دی جائے یا ان کی بے عزتی کی جائے۔‘
"ایک مماز سماجی کارک ہودا خاموش نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت کا ایک کمزور نقطہ اس کا خاندان، اس کے بچے، اس کا شوہر ہے، طالبان نے اس کمزوری کو ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے انہیں حجاب پہننے پر مجبور کیا، مگر کوئی بھی عورت گھر میں رہنے کے احکامات اور نوکری سے روکنے کے فرمان کو قبول نہیں کرے گی۔