پاکستان

لاہور ہائیکورٹ نے جہیز کی واپسی سے انکار کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا

عورت کے بہن بھائیوں کی تعداد سے قطع نظر رخصتی کی صورت میں جہیز دینا لازم تصور کیا جائے گا، عدالت کا فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ نے 2 نچلی عدالتوں کے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس میں ایک خاتون کو ان کے سابقہ شوہر سے جہیز کی رقم واپس مانگنے کے حق سے اس مفروضے کی بنیاد پر انکار کر دیا گیا تھا کہ عورت کا بڑا خاندان ہے اور پشتون اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیتے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد شان گل نے اپنے فیصلے میں محترمہ شارینی کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ جج نے درخواست گزار کے جہیز کی واپسی کے کیس کو حیرت انگیز طور پر اس امر کی بناید پر مسترد کردیا کہ چونکہ درخواست گزار کُل 12 بہن بھائی تھے اس لیے ان کے والدین کی جانب سے دیا گیا جہیز انہیں واپس نہیں دیا جاسکتا۔

درخواست گزار نے اپنی نابالغ بیٹی کے ساتھ ویسٹ پاکستان فیملی کورٹس ایکٹ 1964 کے تحت اپنے سابق شوہر کے خلاف دیکھ بھال الاؤنس، ڈلیوری اخراجات اور 4 لاکھ 23 ہزار 526 روپے کے جہیز کی واپسی کے لیے ٹرائل کورٹ سے رجوع کیا تھا، تاہم ان کی درخواست اور اس کے بعد کی اپیل کو نچلی عدالتوں نے خارج کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے جہیز کا اہتمام

اپنے فیصلے میں جسٹس محمد شان گل نے مشاہدہ کیا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے جہیز کے دعوے کو یکسر مسترد کرنا قانونی طور پر غلط تھا، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے وضع کردہ قانون کے پیش نظر یہ فیصلہ کسی حد تک غلط ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک قابل اعتراض اور غیر ضروری بات ہے کیونکہ قانون میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے، عورت کے بہن بھائیوں کی تعداد سے قطع نظر اگر اس کی رخصتی ہوئی ہو (جو کہ ہوئی تھی) تو جہیز کی چیزیں دینا لازم تصور کیا جائے گا۔

جج نے افسوس کا اظہار کیا کہ اپیل کورٹ فیصلے کو اس قابل اعتراض اور غیرضروری مفروضے پر قائم کیے جانے کی بنیادی غلطی کو نظرانداز نہیں کر سکتی کہ پشتون خاندان اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیتے۔

مزید پڑھیں: جہیز میں موٹر سائیکل اور سونے کی چین مانگنے والے دولہا کو لڑکی والوں نے گنجا کردیا

جج نے مشاہدہ کیا کہ ایسا کوئی قانونی معیار نہیں ہے جس سے یہ واضح ہو کہ پشتونوں نے اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا، انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے اس لیے اس معاملے پر پہلی اپیل کورٹ کا انحصار واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اپیل کورٹ نے بھی قانونی طور پر غلط پیروی کی اور بالکل غیر متعلقہ معاملےکو مدنظر رکھا۔

جسٹس محمد شان گل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے بغیر ثبوت کے یہ فرض کیا جانا کہ درخواست گزار کے والدین کی اس کی شادی کے وقت ایک بڑے خاندان کا حامل ہونے کی وجہ سے اسے جہیز دینے کی استطاعت نہیں تھی یا پشتون اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیتے، یہ صرف اس صورت میں قابل قبول ہوسکتا تھا اگر والدین کی مالی حیثیت یا پشتون قبیلے میں رائج رسم و رواج عدالتی طور پر قابل توجہ حقائق ہوتے۔

ان کا کہنا ہے کہ قانون شہادت آرڈر 1984 میں بیان کردہ حقائق کے علاوہ کوئی اور حقیقت بغیر ثبوت کے نہ تو مانی جا سکتی ہے اور نہ ہی ثابت کی جا سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ نہ تو لڑکی کے والدین کی مالی حیثیت اور نہ ہی جہیز کے حوالے سے پشتونوں کا رواج عدالتی طور پر قابل توجہ حقائق میں سے ایک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جہیز کے سامان کے اندراج کیلئے قانون سازی کی ہدایت

جج نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے ایک بڑے خاندان اور اپیل کورٹ کی جانب سے پشون خاندان کے دونوں مفروضے بے جا اور قانونی طور پر غیرضروری ہیں اس لیے ناقابل قبول ہیں۔

جج نے جہیز کی واپسی کے معاملے پر ٹرائل کورٹ اور اپیل کورٹ کے دونوں فیصلوں کو مسترد کردیا، جج نے درخواست گزار اور ان کی نابالغ بیٹی کی کفالت اور ڈلیوری کے اخراجات سے متعلق فیصلوں کے باقی حصوں کو نہیں چھیڑا۔

تاہم جج نے کہا کہ جہیز کی واپسی کا معاملہ متعلقہ فیملی کورٹ کے سامنے زیر التوا سمجھا جائے گا، فیصلے کے اختتام پر کہا گیا کہ عدالت جہیز کی واپسی کے معاملے کو اوپر پیش کیے گئے حقائق اور ریکارڈ میں دستیاب شواہد کے مطابق اور ابتدائی مفروضوں سے کسی بھی طرح متاثر ہوئے بغیر دیکھے گی۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات، 9 مئی کو سینیٹ کمیٹی کا اجلاس طلب

اگلے ہفتے ملک بھر میں ‘بدترین ہیٹ ویو جیسے حالات’ کا خدشہ ہے، محکمہ موسمیات

سری لنکن صدر کا ہڑتال کے بعد ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان