رضا باقر کے کوٹ کی کریز اور معیشت پر پڑی سلوٹیں
حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر بھی تبدیل ہوگئے اور یوں بطور گورنر اسٹیٹ بینک ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی تمام افواہیں بھی دم توڑ گئیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی رخصتی پر وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اعلان کرتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اعلان کیا۔
ابھی میں رضا باقر کے 3 سالہ دور پر کچھ لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ مفتاح اسمٰعیل کی پریس کانفرنس کا دعوت نامہ مل گیا۔ اس پریس کانفرنس میں راقم نے وزیرِ خزانہ سے سوال کیا کہ ’جب آپ اپوزیشن میں تھے تو رضا باقر پر کڑی تنقید کرتے تھے اور اب تعریف کے ساتھ انہیں رخصت کررہے ہیں۔ کیا گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ ان کی کارکردگی پر کیا گیا ہے؟‘
مفتاح اسمٰعیل نے دبے لفظوں میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ جو رخصت ہورہا ہے اس کو کیا کہیں۔ کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے اسی لیے جانے کو کہا ہے۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے رضا باقر کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہ ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بطور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا دور ملا جلا تھا۔ اس دور میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے اور کچھ غلط کام بھی۔ ان کے جانشین کو ترقی، کشادگی، نئی معیشت کی جانب رہنمائی کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور متعصبانہ خیالات اور نظریات کو ختم کرنا چاہیے۔
سبکدوش ہونے والے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا دور بہت سے معاملات میں یاد رکھا جائے گا۔ ان کے بعض فیصلوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک پاکستانی معیشت کو مستحکم نہیں ہونے دے گا۔
رضا باقر طویل عرصہ بیرون ملک رہنے کے باوجود سابقہ متعدد گورنر اسٹیٹ بینک کے مقابلے میں قدرے اچھی اردو بولنے پر قدرت رکھتے تھے اور ایسے پروگرامات جہاں تمام لوگ انگریزی میں گفتگو کریں وہاں وہ اردو میں بات چیت کرکے لوگوں کے دل موہ لیتے تھے۔ وہ ابلاغ کے بھی ماہر تھے اور صحافیوں سے رسمی بات چیت سے قبل غیر رسمی انداز میں چائے پر گپ شپ کرتے تھے تاکہ ان صحافیوں کی نشاندہی کرلی جائے جو تندو تیز اور سخت سوالات کرنا چاہتے تھے۔
پھر پریس کانفرنس میں ایک ایک صحافی کے سوال کا جواب دینے کے بجائے کئی سوالات کو جمع کرلیتے اور جن سوالات کا جواب نہ دینا ہوتا انہیں چھوڑ دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر سرگرم بعض صحافیوں کی جانب سے رضا باقر کی تعریفیں کی جارہی ہیں۔ مگر راقم نے مسلسل اسٹیٹ بینک کی جانب سے اپنائی جانے والی ان پالیسیوں پر کُھل کر تنقید کی جو معیشت کے لیے نقصاندہ تھیں، اسی ویب سائٹ پر موجود متعدد تحریریں اس کی گواہی دیتی ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے بہت سے اوصاف میں ایک یہ بھی تھا کہ وہ بہت خوش لباس تھے۔ ایک انٹرویو میں انہیں کوٹ پر کالر وائر لیس مائیک لگاتے ہوئے مائیک کا ایک حصہ ان کے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا جس پر رضا باقر بہت غصہ ہوتے ہوئے فرمانے لگے کہ ’آپ نے میرا کوٹ خراب کردیا ہے‘۔ ہم ان سلوٹوں کا بھی ذکر کریں گے مگر اس سے قبل رضا باقر نے اپنی رخصتی پر جو پیغام دیا ہے اس کا ذکر کرلیں۔
سماجی رابطے کی ویب پر رضا باقر نے بطور گورنر اسٹیٹ بینک اپنی مدت ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’الحمد اللہ مرکزی بینک کے گورنر کے طور پر 3 سال کی مدت مکمل ہوئی۔ اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے اپنے ملک میں عوامی عہدے پر خدمات سرانجام دینے کا موقع دیا۔ میں نے پاکستانیوں اور خصوصاً سمندر پار پاکستانیوں کی خدمت کی۔ بطور گورنر اسٹیٹ بینک بہت قابلِ فخر اقدامات کیے جس میں کورونا وبا کے دنوں میں مالیاتی پیکج، مقامی اور برآمدی صنعتوں میں توسیع اور نئی صنعتوں کے قیام کے لیے ٹی ای آر ایف، روزگار پے رول قرضہ، اسپتالوں کو فنانس کرنا، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کو مقامی بینکوں سے منسلک کرنا، ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے راست نظام متعارف کروانا، ڈیجیٹل بینک کے لیے طریقہ کار وضع کرنا اور لائسنس کا اجرا، خواتین کو مالیاتی صنعت تک رسائی، گھروں کی تعمیر یا خریداری کے لیے سستے اور آسان قرضے کی سہولت، اسٹیٹ بینک کو مضبوط بنانے کے لیے 3 ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی کی ہے‘۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کا دعوٰی بھی کیا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی جانب سے جو بھی اقدامات گنوائے گئے ہیں۔ وہ سب کے سب ثانوی نوعیت کے تھے۔ اسٹیٹ بینک کا وہ قانون جو خود رضا باقر کی ٹیم نے ڈرافٹ کرکے منظور کروایا ہے اس میں اسٹیٹ بینک کے 3 مرکزی اہداف رکھے گئے ہیں۔ پہلا قیمتوں میں استحکام، دوسرا مالیاتی صنعت کا استحکام اور تیسرا معاشی ترقی۔
اب ان تمام اہدف کی روشنی میں اوپر بیان کیے گئے کارناموں پر نظر ڈالی جائے تو صرف مالیاتی صنعت کو استحکام دینے کے علاوہ رضا باقر کی قیادت میں اسٹیٹ بینک اپنا پہلا اور تیسرا ہدف یعنی قیمتوں میں استحکام اور معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔
مہنگائی کیوں کنٹرول نہ ہوئی اور شرح سود اور شرح مبادلہ کی متضاد پالیسیاں
اسٹیٹ بینک کے قانون کے تحت مرکزی بینک کا بنیادی اور سب سے اہم کام قیمتوں میں استحکام پیدا کرنا ہے مگر رضا باقر کی قیادت میں اسٹیٹ بینک قیمتوں میں استحکام پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر سے متعلق اسٹیٹ بینک کی شرح مبادلہ کی پالیسی اور مانیٹری پالیسی ایک دوسرے کے متضاد تھی۔
رضا باقر نے بطور گورنر اسٹیٹ بینک عہدے کا چارج سنبھالتے ہی روپے کی شرح مبادلہ کی پالیسی کو مارکیٹ بیس کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ روپے کی قدر کا فیصلہ اب اسٹیٹ بینک یا حکومت نہیں بلکہ مارکیٹ فورسز کریں گی۔ جس کے بعد روپے کی قدر تیزی سے گری اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قائم ہوتے وقت ایک ڈالر تقریباً 122 روپے کا تھا جو حکومت کے خاتمے کے وقت 189 روپے تک پہنچ گیا تھا۔ اس طرح روپے کی قدر میں 67 روپے کی نمایاں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔
سابقہ گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کی معیشت درآمدات پر انحصار کرتی ہے تو پھر وہ اشیا کے ساتھ ساتھ افراطِ زر کو بھی درآمد کرتی ہے۔ پاکستان میں روپے کی قدر جس قدر کم ہوگی ملک میں افراطِ زر میں بھی اسی قدر اضافہ ہوگا‘۔
اس حوالے سے ماہر معیشت اشفاق تولا کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں افراطِ زر کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ ہے۔ روپے کی قدر میں 10 روپے کمی سے افراطِ زر میں 1.2 فیصد اضافہ ہوتا ہے‘۔
اگر سادہ ترین الفاظ میں کہا جائے تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ سے متعلق اسٹیٹ بینک کی پالیسی ملک میں مہنگائی کا سبب بن رہی تھی مگر اس کو کنٹرول کرنے کے بجائے رضا باقر نے مانیٹری پالیسی کو سخت کرنے کا فیصلہ کیا اور بنیادی شرح سود میں اضافہ شروع کردیا یوں کورونا سے پہلے بنیادی شرح سود کو 13.25 فیصد تک بڑھا دیا گیا۔ اس کی دلیل یہ دی کہ مانیٹری پالیسی سخت کرنے اور بنیادی شرح سود میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کی شرح کم ہوگی۔ مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ اسٹیٹ بینک کی شرح مبادلہ پالیسی کی وجہ سے مہنگائی ہورہی تھی اور یہ مہنگائی روپے کی قدر کو مستحکم کرکے ہی محدود کی جاسکتی تھی نہ کہ بنیادی شرح سود میں اضافہ کرکے۔
مگر موجودہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کہتے ہیں کہ سابقہ حکومت نے روپے کی شرح مبادلہ مستحکم کرنے کے لیے مکمل طور پر مارکیٹ بیس شرح اپنانے کا دعوٰی تو کیا مگر انہوں نے مارکیٹ میں ڈالر فروخت کیے تاکہ روپے کی قدر مستحکم ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا ہر مرکزی بینک شرح مبادلہ کو مستحکم رکھنے کے لیے مداخلت کرتا ہے۔
معاشی سست روی، بے روزگاری اور غربت
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود بڑھانے اور افراطِ زر کی بلند سطح کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا اور خود اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2019ء اور 2020ء میں بڑی صنعتوں کی پیداوار منفی رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسٹیٹ بینک اپنے تیسرے ہدف یعنی معاشی ترقی کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
مہنگائی اور بلند شرح سود کی وجہ سے چھوٹے کاروبار کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کا نیٹ ورک چھوٹا ہوتا ہے اور ان میں سرمائے کی قلت ہوتی ہے جبکہ برانڈ بھی مضبوط نہیں ہوتا ہے۔ اگر مہنگائی کی شرح 10 فیصد ہو اور بنیادی شرح سود 13.25 فیصد تو کسی بھی کاروبار کو اپنا کم از کم 23.25 فیصد مارجن تو صرف سود اور مہنگائی کو جذب کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا جبکہ ان دونوں کو جذب کرنے کے بعد اس سے اوپر جتنا منافع کمایا جائے گا وہی حقیقی منافع ہوگا۔ ایسے میں بڑی کمپنیاں ہی مارکیٹ میں برقرار رہ سکتی ہیں اور چھوٹی کمپنیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ اس سے معاشی سست روی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ماہرینِ معیشت اسٹیٹ بینک سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی مانیٹری پالیسی کو مرتب کرتے ہوئے اس کے لیبر مارکیٹ پر پڑنے والے اثرات کو بھی مدِنظر رکھے تاکہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت کے مواقعوں پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔
ہاٹ منی کی آمد اور رخصتی
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی ہوئی اور مہنگائی کو کم کرنے کے لیے بنیادی شرح سود کو 13.25 فیصد کردیا گیا۔ ایسے میں رضا باقر نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو حکومت کے مقامی کرنسی بانڈز میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی جس سے ہاٹ منی بڑے پیمانے پر ملک میں داخل ہوئی اور تقریباً 2 ارب ڈالر کے مساوی سرمایہ پاکستان آیا۔ اس ہاٹ منی پر منافع 13.25 فیصد ہونے کی وجہ سے بہت پُرکشش تھا۔
یورپی ممالک اور امریکا میں اس وقت بنیادی شرح سود 3 فیصد یا اس سے کم تھی۔ اس کی وجہ سے مغربی ملکوں سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں نے قرض لے کر پاکستانی حکومت کے مقامی کرنسی بانڈز میں سرمایہ کاری کی اور اس پر 10 فیصد کا کم از کم منافع کمایا جبکہ پاکستان عالمی منڈی میں بانڈز کی فروخت پر 5 سے 6 فیصد شرح پر منافع دیتا ہے۔ یعنی ہاٹ منی لانے والوں کو دگنا منافع حاصل ہوا۔
یہ ہاٹ منی جس تیزی سے آئی تھی، شرح سود کم ہونے کی وجہ سے اسی تیزی سے واپس بھی چلی گئی۔ موجودہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ اس ہاٹ منی کی آمد و رفت سے قومی خزانے کو 1600 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر اپنے 3 سال کے دور میں معیشت کو مستحکم کرنے، قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور معاشی ترقی میں اضافے کے اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والی سلوٹیں دُور کرنے کے لیے موجودہ حکومت اور رضا باقر کے جانشین کو محنت کرنا ہوگی۔ انہیں مانیٹری پالیسی اور شرح مبادلہ کی پالیسی کو مربوط بنا کر قیمتوں میں استحکام لانا ہوگا۔
اب دیکھنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت مستقل گورنر اسٹیٹ بینک کے لیے کس فرد کا انتخاب کرتی ہے اور اس فرد کے ماضی کو دیکھتے ہوئے ہی اس بات فیصلہ ہوگا کہ وہ پاکستانی معیشت کو کس سمت میں لے کر جائے گا۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔