پاکستان

ٹی بلز کے منافع میں اضافہ بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں ناکام

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 28 اپریل کو 6 مہینے کے بینچ مارک ریٹس میں 114 بیسس پوائنٹ کا اضافہ کرکے اسے 14.99 فیصد کر دیا ہے۔

مالی سال 22-2021 اختتام کے قریب ہے، مارچ اور اپریل سیاسی بحران کے باعث متاثر ہوئے ہیں جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھی مقامی بانڈز میں سرمایہ کاری نہیں کہ جس نے سرمایہ کاری کے اخراج کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 30 اپریل کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے مہینے میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی جبکہ مارچ کا مہینہ بھی تقریباً خالی رہا۔

سیاسی بحران شروع ہونے سے قبل، جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں حکومت تبدیل ہوئی، پاکستان کو فروری میں ٹریژری بل (ٹی بلز) میں ڈھائی کروڑ ڈالر اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) میں 5 لاکھ ڈالر موصول ہوئے۔

اسلام آباد میں حکومت تبدیل ہونے کے باوجود سیاسی حالات غیر یقینی کا شکار ہیں جس کی عکاسی مظاہروں، پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے میں تاخیر اور حکومت برطرف ہونے والی سیاسی جماعت کی جانب سے لانگ مارچ کی کال سے ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: سیاسی بحران سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج میں اضافہ

اگر یہی حالات برقرار رہے تو مالی سال 22-2021 کے باقی دو ماہ میں مقامی بانڈز میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے ٹی بلز اور پی آئی بیز کے شرح منافع میں حالیہ نیلامی میں مزید اضافہ بھی کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 28 اپریل کو 6 مہینے کے بینچ مارک ریٹس میں 114 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کرکے اسے 14.99 فیصد کر دیا ہے، جبکہ یہ اقدام مالیاتی مارکیٹ کی توقعات کے برخلاف تھا۔

ٹی بلز کا منافع 22 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، 6 ماہ کا 14.99 فیصد کا منافع غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بظاہر انتہائی پرکشش ہے اور یہ منافع ایس بی پی کی جانب سے 3 سال قبل ٹی بلز متعارف کروائے جانے سے بھی زیادہ ہے۔

پاکستان ساڑھے 3 ارب ڈالرز سے زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا تاہم کورونا وائرس کی وبا نے عالمی سطح پر تباہی مچائی جس کے باعث سرمایہ کار چند ماہ میں ہی غائب ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 29 فیصد تک کمی

اس وقت جب حالات بہتر اور دنیا کا بیشتر حصہ عالمی وبا سے نکل چکا ہے تو ٹی بلز کی ریکارڈ بلند شرح 14.99 فیصد بھی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔

سرمایہ کاروں کے متوجہ نہ ہونے کی ایک اور وجہ غیر مستحکم معاشی اشاریے بھی ہیں، افراط زر میں ہر مہینے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کر رہا ہے۔

اپریل کے پہلے ہفتے میں مرکزی بینک نے بینچ مارک شرح سود میں 250 بیسس پوائنٹس اضافہ کرکے اسے 12.25 فیصد کر دیا تھا، تاکہ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر قابو پایا جاسکے۔

تاہم حکومت کو بینکوں سے قرض لینے کےلیے ٹی بلز کے منافع کو بڑھانا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی سرمایہ کاری میں 63 فیصد اضافہ

ٹی بلز کا منافع 22 سال کی بلند ترین سطح پر ہے جس کے باعث حکومت شرح سود کو بھی ٹی بلز کی شرح پر لانے پر مجبور ہے۔

چھ ماہ کے ٹی بلز کا منافع ایس بی پی کے موجودہ شرح سود 12.25 کے مقابلے میں 247 بیسس پوائنٹس زیادہ ہے۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل میں افراط زر 13.37 فیصد رہی جس سے حقیقی شرح سود منفی 1.12 فیصد رہی۔

اگر اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید اضافہ کیا تو صنعت و تجارت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ مہنگا سرمایہ طلب میں کمی کردے گا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بھی طلب میں کمی کا خواہاں ہے تاکہ مہنگائی میں کمی اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کا قابو میں لایا جاسکے۔

مزید پڑھیں: براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 32.5 فیصد کمی

مالی سال 2022 کے دو ماہ مئی اور جون بھی غیر ملکی سرمایہ کاری سے خالی رہ سکتے ہیں جو عالمی سطح پر ملک کے معاشی اور کاروباری امیج پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

ان حالات میں حکومت کو قرضے کی صورت میں مزید غیر ملکی کرنسی حاصل کرنی ہوگی تاکہ تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے لیے اس کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جاسکے۔

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ’نیٹ زیرو‘ کیوں ضروری ہے؟

افغانستان: تیز بارشوں کے باعث سیلاب سے 20 افراد ہلاک

میری ’کردارکشی‘ کیلئے مواد تیار کیا جارہا ہے، عمران خان