پاکستان

شیریں مزاری کا عمران خان کے خلاف ‘توہین مذہب قانون’ کے غلط استعمال پر اقوام متحدہ کو خط

پاکستان اقوامِ متحدہ کا ایک ذمہ دار رکن، عالمی معاہدوں اور قانون کی پابند ریاست ہے، شیریں مزاری

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے خط کے ذریعے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوبین سے عمران خان اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے خلاف ‘توہین مذہب قانون کے غلط استعمال’ سے حکومت کو روکنے کے لیے مداخلت کی درخواست کردی۔

شیریں مزاری کی جانب سے 2 مئی کو اقوام متحدہ کے خصوصی مندوبین برائے ماورائے قانون مقدمات یا ماورائے قانون سزاؤں، آزادی رائے اور اظہار اور مذہب اور عقیدے کی آزادی کو خطوط لکھے گئے۔

مزید پڑھیں: حکومت مسجد نبویﷺ واقعے کے خلاف قانونی کارروائی کا حصہ بننے کے حق میں نہیں، وزیر داخلہ

انہوں نے خطوط میں کہا کہ پاکستان میں جب سے ‘حکومت تبدیلی اسکیم’ کے تحت عمران خان کی سربراہی میں حکومت ختم کرکے ‘منی لانڈرنگ اور کرپشن کے متعدد مقدمات میں نامزد اور ضمانت پر رہا’ شہباز شریف کی قیادت میں حکومت آئی ہے تب سے سیاسی بحران ہے۔

اقوام متحدہ کے مندوبین کو لکھے گئے خطوط میں انہوں نے لکھا ہے کہ مارچ میں عمران خان کی حکومت نے کابینہ اجلاس میں قرار دیا تھا کہ سابق وزیراعظم کے خلاف ‘اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں’ کی مدد سے ‘امریکا نے سازش’ کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ نتیجہ واشنگٹن ڈی سی میں تعینات پاکستان کے سفیر کی جانب سے موصول سائفر پیغام کے جزیات سے کشید کیا گیا جو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈونلڈ لو کے ساتھ سفیر اور سفارت خانے کے دیگر تین عہدیداروں کی ملاقات میں ہونے والی گفتگو تھی اور دونوں طرف سے نوٹس لینے کے لیے اہلکار بھی موجود تھے’۔

شیریں مزاری نے خط میں لکھا کہ سائفر پیغام سے عمران خان کے دورہ روس پر امریکی غصہ چھلک رہا تھا جب یوکرین میں عسکری تنازع شروع ہونے والا تھا جبکہ کہا گیا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو ‘سب کچھ بھولا دیا جائے گا’۔

انہوں نے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد ہونے والے واقعات قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے قرارداد مسترد کرنے اور اس معاملے پر سپریم کورٹ کی مداخلت کے حوالے سے بھی خط میں نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ بتایا کہ اسی وجہ سے عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: مسجدِ نبویﷺ واقعے پر عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت پر مقدمہ

خط میں ان کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت سے عمران خان کی ملک بھر میں ریلیوں میں عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے اور وہ پاکستان کی خودمختاری اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ‘اسٹبلشمنٹ کی حمایت سے’ جابرانہ اقدامات کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر کو خط میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تین طرح کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پہلا یہ ہے کہ ریاستی میڈیا اور اکثر تمام نجی چینلز میں کروڑوں اشتہارات اور لاٹھی (اسٹبلشمنٹ) کے ذریعے مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا اور اسی طرح حکومت پی ٹی سی ایل کنٹرول کر رہی ہے، جو کیبل آپریٹرز کو کنکشنز دے رہی ہے اور وہ جو بھی نجی چینل عمران خان کی بڑی ریلیوں کی کوریج کر رہا ہے، اس کو رسائی دینے سے انکار کر رہے ہیں’۔

اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں انہوں نے لکھا کہ انسانی حقوق کی دوسری خلاف ورزی عمران خان اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف دائر ہونے والے توہین مذہب کے مقدمات ہیں، جو مسجد نبوی پر آنے والے واقعے پر ہیں جہاں شہباز شریف اور ان کے وزرا پر پاکستانی زائرین نے تنقید کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی طور بھی منظم واقعہ نہیں تھا لیکن ‘مدینے میں پیش آنے والے واقعے کو توہین مذہب پر مقدمات درج کرنے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کرنا عمران خان اور پارٹی کی قیادت کی زندگیوں کو خطرات ہوسکتے ہیں’۔

مزید پڑھیں: مسجد نبوی ﷺ واقعہ: شیخ رشید کے بھتیجے کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سے فوری گرفتاریوں کا جواز پیدا کیا گیا اور پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کے ایک رکن قومی اسمبلی کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں توہین مذہب کے الزام پر حراست میں لیا گیا’۔

خط میں انہوں نے کہا کہ گوکہ ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے خبردار کیا ہے کہ عمران خان اور ان کے حامیوں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

اقوام متحدہ سے سابق وفاقی وزیر نے استدعا کی کہ وہ پاکستان حکومت سے مداخلت کرکے سیاسی مخالفین کے خلاف توہین مذہب کے استعمال سے روکیں، میڈیا سینسرشپ روکیں اور جابرانہ اقدامات کے تحت پرامن احتجاج پر قدغنیں لگانے اور احتجاج کے مقامات بند کرنے سے باز رکھیں۔

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوبین کو لکھے گئے خطوط کے حوالے سے شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کا ایک ذمہ دار رکن، عالمی معاہدوں اور قانون کی پابند ریاست ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی سطح پر عوام کے بنیادی جمہوری حقوق کا اہتمام حکومت کے بنیادی فرائض میں سے ایک ہے، امریکی سازش کے نتیجے میں بےضمیر مقامی میرجعفروں کی حکومت عوامی تائید سے مکمل محروم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام میں ساکھ اور مقبولیت سے محرومی کے باعث امپورٹڈ حکومت فاشسٹ اقدامات سے اقتدار کا دوام چاہتی ہے، امریکی کٹھ پتلیوں کی امپورٹڈ حکومت کو پاکستان میں طوائف الملوکی کے فروغ کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں پر مقدمہ

وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف مسجدِ نبوی ﷺ میں نعرے بازی کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف و سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت سابق حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور 150 سے زائد افراد کے خلاف فیصل آباد میں مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مسجد نبویﷺ واقعہ: پی ٹی آئی رہنماؤں کیخلاف مقدمات کے اندراج پر حکومتی اکابرین ناخوش

مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 (کسی مذہب کی عبادت گاہ کو توہین کے ارادے سے نقصان پہنچانا یا ناپاک کرنا)، 295 اے (جان بوجھ کر اور بدنیتی پر مبنی کارروائیاں کرنا جس کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ہے)، 296 (مذہبی اجتماع کو پریشان کرنا) اور 109 (کسی غلط عمل کی حوصلہ افزائی کرنا) شامل کی گئی ہیں۔

فیصل آباد میں عام شہری محمد نعیم کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمے میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں اور ایسوسی ایٹس فواد چوہدری، شہباز گِل، قاسم سوری، صاحبزادہ جہانگیر، انیل مسرت کے علاوہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اور ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

شکایت کنندہ کے مطابق مسجدِ نبوی ﷺ میں پیش آنے والا واقعہ ’سوچی سمجھی اسکیم اور سازش‘ کا شاخسانہ ہے اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز اور پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کے خطابات ان کے دعوے کی حمایت کرتے ہیں۔بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور عدالت سے مذکورہ مقدمات کو ‘غیرقانونی’ قرار دینے کی استدعا کی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ نئے وزیرداخلہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو نشانہ بنارہے ہیں اور کھلم کھلا سنگین نتائج کی دھمکی دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف، وزرا کے خلاف زائرین کا احتجاج

گزشتہ ہفتے پاکستانی زائرین کے گروپ نے مسجدِ نبویﷺ میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وفد کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔

سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو کے مطابق مسجدِ نبوی میں وزیر اعظم کو دیکھتے ہی پاکستانی زائرین نے ’چور، چور‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کردیے تھے۔

مزید پڑھیں: مسجد نبوی میں نعرے لگانے پر متعدد پاکستانیوں کو گرفتار کر لیا گیا، سعودی سفارتخانہ

ایک اور ویڈیو میں دیکھا گیا کہ زائرین وفاقی وزرا مریم اورنگزیب اور شاہ زین بگٹی سے بدتمیزی کر رہے ہیں، وہ سعودی گارڈز کی حفاظت میں تھے۔

ایک اور ویڈیو میں ایک شخص کو شاہ زین بگٹی کے بال پیچھے سے کھینچتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اسلام آباد میں واقع سعودی سفارتخانے کے میڈیا ڈائریکٹر نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعے میں ملوث کچھ زائرین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ’ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی‘ اور روضہ رسول ﷺ کی بے حرمتی کرنے والے احتجاجی مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

سیاستدانوں اور دیگر مذہبی رہنماؤں کی جانب سے واقعے کی شدید مذمت کی گئی، تاہم کچھ افراد کی جانب سے واقعے کا ذمہ دار پی ٹی آئی کو ٹھہرایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسجد نبویﷺ واقعہ: حکومت کی سعودی عرب سے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی درخواست

معاملے سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی کو مقدس مقام پر نعرے بازی کرنے کے لیے کہیں‘۔

عمران خان کا ایک انٹرویو جو عیدالفطر پر نشر کیا جائے گا، اس کے ایک حصے میں انہوں نے کہا ہے کہ ’میں نے ہر فورم پر اسلاموفوبیا کے خلاف آواز بلند کی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کرنا میرے ایمان کا حصہ ہے کیونکہ جب تک آپ رسول ﷺ سے محبت نہیں کرتے تب تک آپ کا ایمان مکمل نہیں ہوتا‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی سے مقدس مقام پر نعرے بازی کرنے کا کہوں، نبیﷺ سے محبت کرنے والا کوئی بھی شخص ایسا نہیں سوچ سکتا‘۔

شمالی کوریا کا ایک اور میزائل تجربہ، جاپان، جنوبی کوریا کا اظہار مذمت

فلم ’چکر‘ میری زندگی کی یادگار ترین فلم کیوں ثابت ہوئی؟

مقبوضہ کشمیر میں نماز عید کے اجتماعات پر پابندی، وزیراعظم شہباز شریف کا اظہار مذمت