'معیشت کیلئے مشکل دن آنے والے ہیں' وزارت خزانہ نے خبردار کیا
وزارت خزانہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، بلند مالیاتی خسارہ اور اقتصادی ترقی کے امکانات کو کم کرنے سمیت غیر معینہ دورانیے تک جاری رہنے والے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے امتزاج کے پیش نظر آنے والے مشکل دنوں کی پیش گوئی کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے اقتصادی مشیر ونگ (ای اے ڈبلیو) نے اپنے ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک برائے اپریل میں کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی منظرنامے بدل رہے ہیں جو معاشی بحالی کے لیے مضمرات رکھتے ہیں، دریں اثنا افراط زر اور بیرونی شعبے کے دباؤ سے معیشت میں میکرو اکنامک عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔
ای اے ڈبلیو نے نوٹ کیا کہ بین الاقوامی پیش رفت اور ملک میں مسلسل بلند مہنگائی کی شرح ملکی اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کر سکتی ہے، بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہنگائی میں موجودہ رجحانات کے تعین کرنے والے عوامل میں سپلائی چین کے مسائل اور اشیا کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ شامل ہیں، ای اے ڈبلیو نے رواں ماہ کے لیے 11.5 سے 12.5 فیصد سالانہ افراط زر کا تخمینہ لگایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی دو سال کی بلند ترین سطح 12.96 فیصد تک پہنچ گئی
سی پی آئی (کنزیومر پرائس انڈیکس) میں مجموعی طور پر اضافہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان ایسی اشیا خاص طور پر خام تیل، دالوں اور خوردنی تیل کا خالص درآمد کنندہ ہے جو بالآخر مقامی قیمتوں میں منتقل ہوتا ہے۔
یوکرین کی جنگ، سپلائی چین میں خلل اور عالمی طلب میں بحالی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کو مزید تقویت ملی ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق اشیا کی بین الاقوامی قیمتیں نہ صرف مہنگائی کو بلند رکھتی ہیں بلکہ یہ پاکستان کے بیرونی کھاتے اور اس وجہ سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ ہیں۔
مزید پڑھیں: اکتوبر میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.2 فیصد ہوگئی
بہت سے دوسرے ممالک کو اشیا کی بلند اور غیر مستحکم قیمتوں کا سامنا ہے، پاکستان کے مجموعی سپلائی سائیڈ کو مضبوط بنانے سے اس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اسے برآمدات کے لیے زیادہ پیداوار اور درآمد کی حوصلہ شکنی کا موقع دے گا، یہ امکانات بیرونی رکاوٹوں میں نرمی کریں گے جو تاریخی طور پر پاکستان کی معیشت پر بوجھ رہا ہے اور جس کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا رہا۔
وزارت خزانہ نے کہا اخراجات میں زیادہ سبسڈیز اور گرانٹس مالیاتی کھاتوں پر نمایاں دباؤ ڈال رہے ہیں۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2022 کے جولائی تا مارچ کے دوران مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 4 فیصد ہو گیا ہے جو گزشتہ سال 3 فیصد تھا، یہ امکان ہے کہ آنے والے مہینوں میں مالیاتی خسارہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں خریف کی تمام اہم فصلوں کی پیداوار حوصلہ افزا ہے، کپاس کی پیداوار 17.7 فیصد اضافے سے 8 لاکھ گانٹھیں، چاول 10.7 فیصد اضافے سے 9.3 93 لاکھ ٹن، گنے کی پیداوار 9.6 فیصد اضافے سے 8 کروڑ 88 لاکھ ٹن اور مکئی کی پیداوار 8.6 فیصد اضافے سے 97 لاکھ ٹن ہو گئی۔
مالی سال 2022 میں جولائی تا فروری کے دوران بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) نے گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 2.2 فیصد کے مقابلے میں 7.8 فیصد اضافہ کیا۔
رواں مالی سال کے جولائی تا مارچ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب 20 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران محض ساڑھے 27 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا، جوکہ شرح مبادلہ اور زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے سنگین نتائج کے ساتھ بڑے پیمانے پر اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: معیشت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دباؤ سے نکل سکتی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
تیل، کورونا ویکسین، خوراک اور دھاتوں کی عالمی قیمتوں میں بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ توانائی اور غیر توانائی کی اشیا کی مسلسل بڑھتی ہوئی درآمدی حجم کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا۔
رواں سال اپریل کے لیے اشیا اور خدمات کی برآمدات میں اضافے کا رجحان جاری رہنے کی توقع ہے اور ملکی اقتصادی سرگرمیوں اور بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں کے مطابق درآمدات اسی سطح پر رہ سکتی ہیں۔
مزید برآں پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں میں اقتصادی سرگرمیاں رجحان سے قدرے اوپر رہیں کیونکہ جغرافیائی سیاسی غیر یقینی صورتحال اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کچھ سست روی دیکھی گئی ہے, اگر یہ تناؤ برقرار رہا تو ملکی ترقی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اجناس کی عالمی قیمتوں کے دباؤ کے باعث مہنگائی بڑھنے کا امکان
اپریل میں تجارتی خسارہ 3 ارب ڈالر کے قریب رہنے کی توقع ہے، عید کی وجہ سے ترسیلات پچھلے مہینوں کے مقابلے زیادہ رہ سکتی ہیں، ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ تقریباً ایک ارب ڈالر رہے گا۔
جولائی تا مارچ مالی سال 2022 کے دوران عارضی خالص ٹیکس وصولی 28.9 فیصد بڑھ کر 4 کھرب 3 ارب 76 کروڑ روپے ہو گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 3 کھرب 3 ارب 94 کرورڑ روپے تھی۔
رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران ایف بی آر نے اپنے ریونیو ہدف سے 5.8 فیصد اضافہ کیا، جولائی تا مارچ مالی سال 2022 کے دوران ملکی ٹیکس وصولی میں 28.1 فیصد اضافہ ہوا، براہ راست ٹیکس میں 26.7 فیصد، سیلز ٹیکس میں 31.1 فیصد، ایف ای ڈی میں 14.9 فیصد اور کسٹم ڈیوٹی میں 33.7 فیصد اضافہ ہوا۔