اسرائیلی پولیس کا مسجد اقصیٰ پر دھاوا، 42 فلسطینی زخمی
اسرائیلی پولیس کی جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ کے احاطے میں فلسطینیوں کے خلاف کارروائی میں 42 افراد زخمی ہوگئے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے آخری جمعہ کو یہ کارروائی کی گئی۔
فلسطین کی ہلال احمر نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل پولیس کی کارروائی میں زخمی ہونے والوں میں سے 22 کو ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم کسی زخمی کو کوئی شدید چوٹ نہیں آئی ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی پولیس کا ایک بار پھر مسجد اقصیٰ پر دھاوا، 17 فلسطینی زخمی
اسرائیلی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ’شرپسندوں‘ کی طرف سے مسجد اقصیٰ کے قریب یہودیوں کے مقدس مقام کی طرف پتھر اور آتشبازی کے بعد فورسز مسجد کے احاطے میں داخل ہوئیں۔
بیان میں کہا گیا کہ افسران نے بدامنی پر قابو پانے کے لیے کارروائی کی۔ عینی شاہدین اور ’اے ایف پی‘ کے رپورٹرز نے کہا کہ پولیس نے ہجوم پر آنسو گیس اور ربر کی گولیاں چلائیں۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، 3 فلسطینی جاں بحق
پولیس کا کہنا تھا کہ دو افراد کو پتھر پھینکنے اور ایک کو ہجوم کو اکسانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک گھنٹے سے اس مقام پر خاموشی ہے اور مسلمان عبادت کرنے لیے بحفاظت کمپاؤنڈ میں داخل ہو رہے ہیں۔
تاہم یروشلم کے پرانے شہر کے مرکز میں جو کہ اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی یروشلم کا ایک حصہ ہے، کشیدگی تاحال برقرار ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے فلسطینی بہن بھائی قتل
گزشتہ دو ہفتوں کےدوران مسجد اقصیٰ کے احاطے میں کشیدگی سے تقریباً 300 فلسطینی زخمی ہوئے۔ مسجد اقصیٰ اسلام کی تیسری سب سے مقدس جگہ ہے جس کو یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے نام سے اپنی مقدس جگہ کہتے ہیں۔
رمضان کے دوران اس جگہ پر اسرائیل کی جارحیت نے عالمی تشویش کو جنم دیا ہے لیکن یہودی ریاست نے اصرار کیا ہے کہ اسے حماس اور اسلامی جہاد گروپوں کے کارندوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جو پورے یروشلم میں بڑے پیمانے پر بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔
کشیدگی کو بظاہر کم کرنے کی کوشش میں اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لاپد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اس کنونشن پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے کہ وہاں پر صرف مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت ہے اور یہودیوں کو ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ میں جانے کی اجازت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطینی شہری کے قتل کو سانحہ قرار دے دیا
تاہم مسلم رہنماؤں نے اس طرح کے دوروں میں حالیہ اضافے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے اور کچھ لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اسرائیل اس احاطے کو تقسیم کرنے اور ایک ایسی جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں یہودی عبادت کر سکیں۔ یائر لاپد نے اس بات کی نفی کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی یروشلم میں تشدد نے ایک اور مسلح تصادم کا خدشہ پیدا کر دیا ہے جو کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ سال گیارہ دنوں تک جاری تھا۔
حالیہ ہفتوں میں غزہ سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر ہونے اور اسرائیلی جوابی حملے دیکھنے میں آئے ہیں، لیکن دونوں طرف سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
مسجد اقصیٰ میں کشیدگی اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں 22 مارچ سے تشدد کے پس منظر میں شروع ہوئی تھی۔
اسرائیل کے اندر چار الگ الگ حملوں میں ایک عرب اسرائیلی پولیس افسر سمیت 12 اسرائیلی اور دو یوکرینی شہری مارے گئے تھے۔ ان میں سے دو ہلاکت خیز حملے تل ابیب کے علاقے میں فلسطینیوں کی جانب سے کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فائرنگ سے 200 فلسطینیوں کا قتل، ’اسرائیل تحقیقات کرنے میں ناکام‘
اسی دوران 26 فلسطینی اور 3 اسرائیلی عرب مارے جاچکے ہیں جن میں حملہ آور اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔
سابق وزیر اعظم و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اسرائیلی جارحیت پر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔
یوم القدس (اسرائیل کی قیام اور یروشلم پر قبضے پر احتجاج کا دن) کے موقع پر اپنے پیغام میں عمران خان نے نشاندہی کی کہ ہر رمضان میں مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فورسز کے قابل مذمت حملوں کا سامنا کیا ہے۔