پاکستان

لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ ایک اور مقدمے میں بری

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے نشاندہی کی کہ عزیر بلوچ کے خلاف پراسیکیوشن جرم ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ اور کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے چیئرمین عزیر بلوچ کو پولیس مقابلے کے برسوں پرانے مقدمے میں بری کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لیاری گینگ وار کے سرٖغنہ عزیر بلوچ، تاج محمد عرف تاجو، شیراز کامریڈ، اور سلطان عرف جونی پر نیپیئر پولیس اسٹیشن میں مجرموں کے خلاف آپریشن کے دوران ایک پولیس اہلکار پر قاتلانہ حملہ کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: لیاری گینگ وار کا سرغنہ عذیر بلوچ پولیس پر حملے کے 2 مقدمات میں بری

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کی اور دونوں طرف سے شواہد اور حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

مزید پڑھیں: عزیز بلوچ قتل کے مزید 2 مقدمات میں بری

کمرہ عدالت میں جج نے نشاندہی کی کہ عزیر بلوچ کے خلاف پراسیکیوشن جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا، عدم ثبوتوں کی بنا پر عدالت نے عزیر بلوچ کو مقدمہ سے بری کردیا۔

تاحال عزیر بلوچ کو 18 مقدموں میں بری کیا جا چکا ہے تاہم انہیں رہا نہیں کیا جاسکا کیونکہ وہ اغوا برائے تاوان، قتل، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں اور پاکستان پیپلز پارٹی اور پولیس کی مبینہ سرپرستی میں بھتہ خوری کے ریکٹ چلانے سے متعلق 40 کے قریب مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ ایک اور کیس میں بری

اس سے پہلے سرکاری وکیل نیل پرکاش اور علی رضا عباسی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عزیر بلوچ، تاج محمد، شیراز کامریڈ، سلطان، ظفر بلوچ اور نور محمد عرف بابا لاڈلہ نے اپنے کچھ نامعلوم ساتھیوں کے ہمراہ اپریل 2012 میں نیپیئر پولیس اسٹیشن پر گرنیڈ پھینکا تھا۔

جس پر عزیر بلوچ کے وکیل عابد زمان نے دلائل دیے کہ ان کے موکل کو موجودہ کیس میں پراسیکیوشن کی جانب سے مذموم مقاصد کے تحت پھنسایا گیا جس میں ان کے خلاف درج جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

وکیل نے معزز جج کو درخواست کی تھی کہ ان کے موکل کو جھوٹے مقدمے سے بری کیا جائے۔