بچوں کو متاثر کرنے والی ’ہیپاٹائٹس‘ کی پُراسرار قسم سنگین ہوگئی
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ یورپ کے متعدد ممالک سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بچوں میں تشخیص ہونے والی ہیپاٹائٹس کی پراسرار قسم سے کم از کم ایک ہلاکت ہوچکی جب کہ کیسز کی تعداد 190 تک جا پہنچی ہے۔
ہیپاٹائٹس کی پراسرار قسم رواں ماہ اپریل کے آغاز میں ابتدائی طور پر برطانیہ میں بچوں کے اندر پائی گئی تھی، جس کے بعد مذکورہ وائرس امریکا سمیت چند یورپی ممالک میں بھی پایا گیا۔
تاہم اب مذکورہ مشکوک قسم دیگر ممالک تک پھیل گئی ہے اوراسرائیل میں بھی بچوں کے اندر جگر کو سخت متاثر کرنے والی ہیپاٹائٹس کی قسم کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق یورپی صحت ریگولیٹری حکام نے تصدیق کی کہ خطے میں مشتبہ ہیپاٹائس کی قسم سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد 140 تک جا پہنچی ہے۔
اس وقت تک دنیا بھر میں جگر کو متاثر کرنے والی ہیپاٹائٹس کی خطرناک مگر مشتبہ قسم سے ایک ماہ سے 16 سال کی عمر تک کے 190 بچے متاثر ہو چکے ہیں۔
مشتبہ بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر ممالک کے بچوں کا تعلق امریکا، اسرائیل اور برطانیہ سے ہے جب کہ اب تک اس بیماری سے یورپ میں ایک بچے کی ہلاکت بھی ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یورپ و امریکی ممالک کے بچوں میں ہیپاٹائٹس کی پراسرار قسم کی تشخیص
ماہرین کے مطابق اب تک کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ جن بچوں میں پراسرار بیماری کی تشخیص ہوئی، انہوں نے کسی بھی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا اور وہ پہلے صحت مند زندگی گزار رہے تھے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ بعض بچوں میں بیماری کی شدت اتنی سنگین پائی گئی کہ ہنگامی بنیادوں پر ان کے جگر کا ٹرانسپلانٹ کرنا پڑا، کیوں کہ ان کے جگر فیل ہوچکے تھے۔
فوری طور پر ماہرین کو ہیپاٹائٹس کی مذکورہ پُر اسرار قسم سے متعلق کوئی بھی ایسے شواہد نہیں ملے، جن سے بیماری کی ابتدا اور اس کی نوعیت کا علم لگایا جا سکے۔
یورپ اور امریکا سمیت اسرائیل میں مذکورہ وائرس کے کیسز آنے کے بعد دنیا کے متعدد ممالک نے بھی اپنے ہاں بچوں میں اس طرح کے وائرسز ہونے یا نہ ہونے کی تفتیش شروع کردی ہے۔
مذکورہ قسم کے حوالے سے برطانوی ماہرین نے بتایا تھا کہ یہ روایتی ہیپاٹائٹس سے مختلف ہے۔
ہیپاٹائٹس کا وائرس جگر کو متاثر کرتا ہے اور مرض بڑھ جانے سے ہیپاٹائٹس کینسر میں تبدیل ہوجاتا ہے، مذکورہ پراسرار وائرس بھی بچوں کے جگر کو سخت متاثر کر رہا ہے، تاہم اس وائرس پھیلنے کی وجوہات کا فوری طور پر علم نہیں ہو سکا۔