نقطہ نظر

جبلِ نور القرآن: جس پر کوئٹہ کے لوگ فخر کرتے ہیں

یہاں 100 سے زیادہ سرنگیں ہیں جن میں اب تک اندازاً ڈھائی سے 3 کروڑ قرآن پاک اور دینی کتب آچکی ہیں۔

جن لوگوں کو ریل یا سڑک کے ذریعے سفر کرنا پسند ہو، ان کی پہلی خواہش ہوتی ہے کہ سفر آرم دہ ہو اور انہیں کھڑکی والی سیٹ ملے تاکہ وہ باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ کراچی سے شمال کی طرف سفر شروع کریں تو سکھر تک دھول اور ریت اڑاتی زمین نظر آتی ہے لیکن اس سے آگے زمین کی ساخت بدلتی ہے اور سبزہ آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔

لیکن اگر آپ کا رُخ بلوچستان کی طرف ہو اور آپ آر سی ڈی ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے کوئٹہ شہر پہنچنا چاہتے ہوں تو اس سفر میں آپ کے ہم قدم چٹیل پہاڑ ہوں گے۔ کہیں یہ خاکستی رنگ کے ہوں گے اور کہیں یہ رنگت بدل کر سیاہی مائل ہوجاتے ہیں۔

یہ پہاڑی سلسلہ بہت اونچا نہیں لیکن اپنے وجود کو محسوس کراتے ہوئے کبھی حیرت زدہ کرتا ہے تو کبھی ہیبت زدہ۔ ذرا غور کریں تو اس پہاڑی سلسلے میں انسانی شکلیں تک نظر آنے لگتی ہیں بلکہ یہ کلام بھی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ 8، 9 گھنٹے کا یہ طویل سفر مزے سے گزر جاتا ہے یہاں تک کہ آپ کوئٹہ شہر میں داخل ہوجاتے ہیں۔

اس سفر میں ہمارے ساتھ عاصلہ بھی تھیں جو فوٹوگرافی کرتی ہیں۔ ہم دو خواتین جب کراچی سے نکلیں تو فروری کی ہلکی خنکی تھی لیکن یہی خنکی کوئٹہ شہر پہنچ کر ٹھنڈ میں بدل گئی۔ ہلکی سی برف کی تہہ تھی، جو دُور پہاڑوں کی چوٹی پر سفیدی کی صورت میں نظر آرہی تھی۔ اس کی وجہ سے رات کے کسی پہر درجہ حرارت ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک گِر گیا تھا۔

کوئٹہ میں ہمارا قیام اسٹورٹ روڈ پر واقع بلوم اسٹار ہوٹل میں تھا۔ ہوٹل صاف ستھرا اور شہر کے وسط میں تھا۔ صدر اور دیگر کمرشل علاقے بھی یہاں سے زیادہ دُور نہیں تھے۔ یہ سفر تو ہم نے مقامی خبروں کی 'گراؤنڈ رپورٹ' حاصل کرنے کے لیے کیا تھا لیکن ساتھ ساتھ اپنی دلچسپی کے مقامات بھی دیکھے۔

کوئٹہ چھوٹا لیکن خوبصورت شہر ہے اور یہاں کئی تاریخی اور تفریحی حوالے موجود ہیں۔ یہاں پہنچ کر جب ہم نے مقامی افراد سے پوچھا کہ کہاں کہاں جائیں تو ہر ایک کی زبان پر پہلا نام 'جبل نورالقرآن' کا تھا۔ پھر فیصلہ ہوگیا کہ اس سفر کا پہلا پڑاؤ جبل نورالقرآن ہی ہوگا، اور اس کے بعد ہی آگے کی خاک چھانیں گے۔

یہ مقام کوئٹہ کے مضافات میں چلتن پہاڑی سلسلے میں واقع ہے جہاں پہاڑوں میں سرنگ کھود کر قرآن کریم کے ضعیف اور مخدوش نسخے اور دیگر مذہبی کتب اور ان کے اوراق رکھے جا رہے ہیں تاکہ انہیں بے حرمتی سے بچایا جائے۔ مقامی آبادی بھی جبل نورالقرآن پر فخر کرتی ہے کہ یہ ناصرف پاکستان بلکہ دنیا میں واحد مقام ہے جہاں قرآن پاک اور مذہبی کتب کے ضعیف صفحات کو پورے احترام کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔

1992ء میں جبل نور فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا اور میر عبد الصمد لہڑی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا جسے ان کے بھائی میر عبد الرشید لہڑی نے آگے بڑھایا۔ اب اس کام کو لہڑی خاندان کی دوسری اور تیسری نسل کررہی ہے۔

ابتدا میں خیال تھا کہ دینی اوراق جو ضعیف اور بوسیدہ ہوجاتے ہیں انہیں بے حرمتی سے بچایا جائے۔ اس خیال کو عملی شکل دینے کے لیے ایک پہاڑی میں سرنگ کھودی گئی اور ضعیف صفحات کو وہاں محفوظ کردیا گیا۔ 30 سال پہلے ایک سرنگ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج 100 سے زیادہ سرنگوں تک جا پہنچا ہے۔

ہمارے ساتھ کوئٹہ کے رہائشی گل احمد تھے جن کی وجہ سے ہمیں ہر جگہ آسانی رہی۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم جبل نور کی اہمیت اور کام سے واقف تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ یہاں موجود قرآن میوزیم کے ساتھ ساتھ سرنگ کو بھی دیکھیں، اس لیے ہم نے صبح تازہ دم ہوکر جانے کا فیصلہ کیا۔

ہمارا ہوٹل شہر کے وسط میں تھا لہٰذا ہم نے جبل نور کے لیے گاڑی گھمائی اور مغربی بائی پاس پر حاجی کیمپ کی طرف رخ موڑ لیا جہاں بروری روڈ پر جبل نورالقرآن واقع ہے۔ یہاں پہنچے تو محسوس ہوا کہ یہ علاقہ کوئٹہ شہر سے ذرا ہٹ کر ہے۔ گل احمد سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ علاقے کی غالب اکثریت پشون ہے۔ یہاں دیوبند مکتبہ فکر کے کئی پرانے دینی مدارس بھی قائم ہیں۔

پورے کوئٹہ شہر میں ہی عوامی سواریاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ راستے میں خواتین اور بچوں کو اندورن شہر جانے والی بسوں کے انتظار میں دیکھا۔ حیرت کی بات یہ لگی کہ مردوں کے لیے سفر کرنا مشکل ہے تو خواتین کیسے سفر کرتی ہوں گی؟

چلیں ہم واپس جبل نورالقرآن کی طرف آتے ہیں۔ یہ پہاڑ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ گاڑی پارک کرکے ہم داخلی دروازے سے احاطے میں داخل ہوئے اور دو قدم ہی چلے تھے کہ ہمارے ہاتھوں میں کیمرہ دیکھ کر سیکیورٹی اسٹاف نے اشتہاری بورڈ کی طرف اشارہ کیا کہ تصاویر اور ویڈیو کی اجازت نہیں۔ ہم نے ان کی بات پر سر ہلا دیا اور کیمرا اندر رکھ لیا۔ ہمارا تو یہ اصول ہے کہ کہیں بھی کیمرا ہاتھ میں نہ ہو، لیکن عاصلہ سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ راستے میں تصاویر لیتے ہوئی آئیں تھیں اس لیے وہ کیمرہ ہاتھ میں لے کر اتر گئیں۔ بہرحال تصاویر تو ہمیں لینا تھیں لیکن اجازت لے کر۔

ہم ابھی جبل نورالقرآن کے میوزیم میں داخل ہی ہوئے تھے کہ یہاں کے خادم محمد اجمل آگئے۔ بات چیت کرنے کے بعد انہوں نے ہمیں تصاویر لینے کی اجازت بھی دے دی، مگر تصاویر لینے سے پہلے ہی ہم وہاں کے ماحول میں کھو گئے۔ وہاں بہت نایاب اور قدیم قرآنی نسخے اور اوراق موجود تھے۔ اگر کوئی محقق اس حوالے سے تحقیق کرنا چاہے تو اس کے لیے یہاں کافی مواد موجود ہے۔

یہاں موجود قرآن کے مقامی اور بین الاقوامی زبانوں کے ترجمے، قلمی نسخے اور خطاطی کے نمونے قابل دید ہیں۔ ساتھ ہی قرآن کے قدیم اور ابتدائی اشاعتی ادوار کے نسخے بھی موجود ہیں جیسے کہ 1912ء میں منشی نول کشور کا لکھنؤ سے چھاپا ہوا مخطوطہ۔ اس کے علاوہ یہاں چند قدیم اور قلمی نسخے ایسے بھی تھے جن کے صفحات کو گل بوٹوں سے مزین کیا گیا تھا۔

محمد اجمل بتاتے ہیں کہ 'یہاں کا سارا نظام اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے چندہ بکس میں کچھ ڈالنا چاہے تو ڈال دے۔ یہاں لوگ قرآن کے ہدیے لے کر آتے ہیں اور خواتین کے لیے چھوٹی سی مسجد کا بھی اہتمام ہے۔ یہاں خواتین آتیں ہیں اور نماز ادا کرتی ہیں، دعا مانگتی ہیں'۔

ہم نے بھی کچھ خاندانوں کو وہاں دیکھا جن میں خواتین اور بچے الگ غار نما کمرے میں بیٹھے تھے۔ کچھ خواتین کو آگے ایک دروازے میں دھاگے باندھتے بھی دیکھا۔ یقیناً وہ کچھ منت مرادیں لے کر آئی ہوں گی۔

جبل نورالقران کے خادم نے یہ بھی بتایا کہ 'یہاں اب تک اندازاً ڈھائی سے 3 کروڑ قرآن پاک اور دینی کتب آچکی ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اگر ایک ہزار فٹ کی سرنگ میں 35 ہزار بوریاں آتی ہیں اور ایک بوری میں 35 سے 45 ضعیف قرآن پاک اور دینی کتب آتی ہیں تو پھر یہاں کتنی کتب پہنچ چکی ہوں گی۔ اگر کوئٹہ شہر میں ہی کوئی ضعیف دینی کتب ہم تک پہنچانا چاہے تو ہمیں فون پر بتا دے، ہم گاڑی بھیج کر منگوالیں گے۔ اندرونِ ملک یا پھر بیرونِ ملک سے بھی ہم تک پارسل پہنچائے جاسکتے ہیں'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پارسل وصول ہونے کے بعد سب سے پہلے اسے چھانٹنے کے عمل سے گزارا جاسکتا ہے۔ یہاں خادم القرآن بوری کھول کر قیمتی اور نایاب نسخوں کو الگ کرنے کے ساتھ ضعیف اور مخدوش کتب کو جبل نور میں دفن کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد جن کتب اور قرآن کریم کی جلد سازی کرکے بہتر کیا جاسکتا ہے انہیں دوسرے سیکشن میں لے جاتے ہیں جہاں جلد سازی کرکے انہیں دوبارہ پڑھنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ یہ جلد شدہ قرآن شریف دینی مدارس کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں یا پھر یہاں آنے والے تحفے میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں‘۔

قرآن پاک کے عظیم اور نایاب نسخوں کا ذخیرہ

محمد اجمل نے بتایا کہ میوزیم بنانے کا خیال جبل نورالقرآن فاؤنڈیشن کو اس وقت آیا جب قدیم اور قلمی نسخے ان کے ہاتھ لگے۔ ان میں سے چند نسخے تو 600 سے 700 سال پرانے ہیں اور کچھ 300 سال پرانے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے پاس سب سے قیمتی اور نایاب زمرد سے تیار کردہ سیاہی سے مزین قرآن پاک کا قلمی نسخہ بھی ہے جس کے رنگوں کی آب و تاب آج بھی برقرار ہے۔

یہاں حضرت عثمان غنیؓ کے رسم الخط کا قرآن پاک بھی ہے جو دہلی میں 1861ء میں چھپا۔ یہاں مذاق العارفین کا ترجمہ احیا علوم، مصنف محمد احسن صدیقی، مطبع منشی نول کشور، لکھنو کا سن 1912ء کا چھپا ہوا قدیم مخطوطہ بھی ہے۔

جبل نورالقرآن میں جہاں نادر و نایاب قرآنی نسخے اور مذہبی کتب موجود ہیں وہیں ان کے پاس عدسے (Lens) کی مدد سے پڑھا جانے والا 300 سال پرانا انتہائی چھوٹا قلمی نسخہ بھی ہے۔ اس کی لمبائی ساڑھے 9 سینٹی میٹر اور چوڑائی ساڑھے 5 سینٹی میٹر ہے۔ یہاں ایک اور مائیکرو قرآن بھی ہے جس کی لمبائی 12 سینٹی میٹر اور چوڑائی 8 سینٹی میٹر ہے۔

خادم قرآن محمد اجمل نے قرآن اور قدیم دینی کتب کے بارے میں بتایا کہ 'ہماری کوشش ہے کہ حاصل ہونے والی کتب پر ان کا نام، مصنف کا نام اور سن اشاعت لکھ دیں'۔

اتنی نایاب دینی کتب کو دیکھ کر ہم نے بے ساختہ پوچھ ہی لیا کہ آخر اتنے سال پرانے، قدیم اور قلمی نسخے محفوظ کیسے رہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے قیمتی کتب کو محفوظ کرنے کے لیے چمڑے کی جلد کردی جاتی تھی جس کی وجہ سے یہ آج ہمارے ہاتھوں تک پہنچے۔ ان میں سے اکثر کے صفحات ضعیف ہوچکے تھے جنہیں ہم نے درست کیا اور محفوظ بنایا جبکہ چند کتب کے شروع اور آخر کے صفحات ضائع ہوچکے ہیں اسی لیے ہمیں مصنف، کتابت اور اشاعت کی تفصیل نہیں مل سکی۔

تیونس کا القرآن العظیم، انڈونیشا کے عربی اور رومن زبان کے قرآن کریم کے آخری 10 پارے بھی یہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کے پاس قرآن پاک کا سنہالی زبان میں ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس کا متن عربی میں ہے اور اسے مورا اسلامک کلچر ہوم، سری لنکا نے شائع کیا ہے۔

نایاب نسخوں میں بلوچی زبان کا قدیمی نسخہ، حضرت علامہ قاضی عبدالصمد سربازی و حضرت مولانا خیر محمد صاحب ندوی الحمقہ المرکزیہ الدعوۃ اسلامیہ، پنجگور، مکران و جامعہ النصاریہ تربت کا لکھا ہوا ہے۔ قرآن الکریم مترجم بزبان بروہی ترجمہ مولوی محمد عمر پندانی، طباعت ہندوستان، اسٹیم پریس لاہور، 1914ء کی شائع کردہ ہے۔ پھر کوئٹہ کی مقبول شخصیت جو نانا صاحب کہلاتے تھے، ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے قلمی سپارے بمعہ ترجمہ بھی اس میوزیم کا حصہ ہے۔

یہاں کتاب درود سلام کا 500 سال پرانا قدیم قلمی نسخہ بھی ہے، جس کے کاتب و سن تحریر نہیں۔ حدیث اور دینی مسائل پر فارسی زبان میں کتب کے ساتھ قرآن پاک بھی موجود ہے۔ یہاں کتاب فقہ کا 400 سے 500 سال پرانا مجلد لیکن قدیم نسخہ ہے۔

جبل نورالقرآن میں سرنگ کھودنے والے ریاض

یہاں ایک دو گھنٹے گزارنے کے بعد ہم نے باہر نکل کر پہاڑ کی جانب چڑھنا شروع کیا۔ اوپر پہنچ کر کوئٹہ شہر کا نظارہ ہی کچھ الگ تھا۔ جبل نورالقرآن سے جڑے احاطے میں نیچے قبریں تھیں اور ایک کھیل کا میدان بھی نظر آیا۔ یہاں کچھ بچے بھی تھے جو ہم سے شرما کر بھاگ گئے۔ ذرا اور اوپر گئے تو یہاں ہماری ملاقات سرنگ کھود کر واپس آنے والے نوجوان ریاض سے ہوئی اور وہ ہمیں سرنگ کے اندر لے جانے کے لیے تیار ہوگئے۔

سرنگ کے داخلی دروازے پر باقاعدہ تالے لگے ہوئے ہیں۔ سرنگ کا تالہ ریاض نے ہی کھولا اور ہم ابھی ایک دو منٹ ہی چلے تھے کہ یکایک تیز روشنی سے اندھیرے میں آگئے۔ سب نے فوراً موبائل سے روشنی کرنے کی کوشش کی۔ یہ ناکافی روشنی ہمیں راستہ دکھانے کے قابل تو نہیں تھی لیکن ہم جوش میں پیچھے پیچھے چلتے رہے۔

چلتے چلتے ریاض نے بتایا کہ ایک سرنگ 6 فٹ چوڑی ہوتی ہے اور انہیں ایک فٹ کھدائی کے ایک ہزار روپے مزدوری ملتی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ہزار فٹ سرنگ کھودی ہے جسے کھودنے میں انہیں تقریباً ایک سال لگا ہے۔ وہ یہاں صبح 8 بجے سے پہلے آجاتے ہیں اور شام کے 4 بجے تک کام کو جاری رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے مزدوری زیادہ سخت تھی کیونکہ کھدائی کا کام ہاتھ سے کرتے تھے لیکن اب ڈرل مشین نے کسی حد تک ان کے کام کو آسان کردیا ہے۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔