پاکستان

نواز شریف، بلاول بھٹو کی میثاقِ جمہوریت پر عمل درآمد کے عہد کی تجدید

دونوں رہنماؤں نے جمہوریت،قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے آئینی فتح کے بعد آگے بڑھنے کے راستوں پر تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لندن میں ملاقات کی جس میں میثاق جمہوریت (سی او ڈی) کی نامکمل شقوں پر عمل درآمد پر اتفاق کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں جماعتوں کی جانب سے میثاقِ جمہوریت پر تقریباً 16 سال قبل دستخط کیے تھے اور تمام جمہوری قوتوں کے اتفاق رائے سے مستقبل کے لیے ایک روڈ میپ کو حتمی شکل دی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری دونوں نے جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے آئینی فتح کے بعد ’آگے بڑھنے کے راستوں‘ پر تبادلہ خیال کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ملاقات میں ’میثاقِ جمہوریت میں نامکمل چھوڑے گئے کام کو مکمل کرنے اور تمام جمہوری قوتوں کے اتفاق رائے سے مستقبل کے لیے وسیع روڈ میپ تشکیل دینے پر گفتگو کی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ آگے کا راستہ طے کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم تازہ 'میثاق جمہوریت' پر کام کرے گی

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے عوام پی ٹی آئی کی بے مثال نااہلی اور بدانتظامی کے سبب بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں، ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’مشترکہ اہداف میں معیشت کو مرحلہ وار بہتر کرنے کی کوشش کرنا شامل ہے، عمران خان نے معیشت کو بحران کا شکار کرتے ہوئے ملک کو نیچے دھکیل دیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی پر خوفناک غلطیوں اور خود غرض تجارت کے ساتھ ساتھ ملک کے جمہوری نظام پر ہونے والے حملوں کے بعد نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔

36 نکاتی میثاق جمہوریت پر دونوں جماعتوں نے مئی 2006 میں لندن میں دستخط کیے تھے جب ملک میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے دوران نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک اور میثاقِ جمہوریت کی ضرورت کیوں؟

دستاویز کے ذریعے دونوں جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے کی اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

میثاق جمہوریت کی ایک اہم شق جس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی طرف سے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی وہ آئینی مسائل کے حل کے لیے ایک وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل سے متعلق تھی۔

اس شق کے مطابق وفاقی آئینی عدالت میں تمام وفاقی اکائیوں جن کے اراکین جج ہوں گے یا سپریم کورٹ کے جج بننے کی اہلیت رکھتے ہوں گے کو یکساں نمائندگی دی جائے گی، یہ عدالت 6 سال کی مدت کے لیے تشکیل دی جائے گی۔

آئینی عدالت بننے کے بعد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کام کا دائرہ باقاعدہ دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت تک محدود ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں: ’میثاق جمہوریت‘ کا مقصد جمہوریت کو مضبوط کرنا تھا، بلاول بھٹو زرداری

میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد پورے 5 سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں نے سچائی اور مصالحتی کمیشن کے قیام کو بھی نظر انداز کیا۔

مجوزہ کمیشن کے مقاصد میں سے ایک ’ریاست کی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم، ٹارگٹڈ قانون سازی، اور سیاسی طور پر محرک احتساب کو تسلیم کرنا‘ تھا۔

میثاقِ جمہوریت کی متعلقہ شق کے مطابق ’تشدد، قید، ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم، ٹارگٹڈ قانون سازی اور سیاسی طور پر محرک احتساب کو تسلیم کرنے کے لیے ایک سچائی اور مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے‘۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ’کمیشن 1996 سے فوجی بغاوتوں اور حکومتوں کی سول برطرفی سے متعلق نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے رپورٹ کرے گا‘۔

علاوہ ازیں کمیشن، کارگل جیسے واقعات کی روشنی میں اپنی سفارشات پیش کرے گا اور اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے ذمہ داران کا تعین کرے گا۔

سیاسی طور پر محرک ’نیب‘

دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ بدنام زمانہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو ختم نہ کرکے غلطی کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: 'میثاق جمہوریت میں سینیٹ الیکشن اوپن کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا'

میثاق جمہوریت میں دونوں جماعتوں نے ’سیاسی طور پر محرک‘ نیب کی جگہ ایک آزاد قومی احتساب کمیشن بنانے پر اتفاق کیا۔

میثاق جمہوریت میں ایک اور اہم شق موجود ہے جو دونوں جماعتوں کی نظروں سے اوجھل رہی ہے، جس میں ایک قومی ڈیموکریسی کمیشن کی تشکیل کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کا مقصد ’ملک میں جمہوری نظام کو فروغ دیتے ہوئے ترقی کرنا اور سیاسی جماعتوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔

دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ماضی میں کچھ غلطیاں کی ہیں، تاہم دعویٰ کیا کہ انہوں نے میثاق جمہوریت کی اہم ترین شق کا احترام کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی جماعت جمہوریت دشمن قوتوں کی ملی بھگت سے منتخب حکومت کو ختم کرنے کا آلہ کار نہیں بنے گی۔

نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب تاحال حلف نہ اٹھا سکے

بھارتی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کیلئے پاکستان کا سفر نہ کرنے کی تجویز

چہل قدمی کریں ڈپریشن سے محفوظ رہیں