'یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں'
ایک نجی ٹی وی کی خاتون رپورٹر نے سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر شیئر کیں، چہرے پر زخم، سوجے ہوئے ہونٹ اور آنکھوں میں وحشت، یہ تصاویر کہانی سناتی تھیں اس تشدد آمیز برتاؤ کی جو ان سے ہفتے کی شب کراچی میں سیاسی جماعت کے جلسے میں روا رکھا گیا۔
رپورٹر زم زم سعید کے مطابق سیاسی کارکنان نے جلسے کی کوریج کے دوران انہیں اور ان کے کیمرہ مین شاہد بلوچ کو پتھر اور ڈنڈے مارے، مغلظات بھی بکیں۔ زم زم کے مطابق پتھر لگنے سے ان کا ہونٹ زخمی ہوگیا۔
16 اپریل کو اس احتجاجی جلسے میں رپورٹر زم زم کے علاوہ 2 اور خواتین رپورٹرز عادیہ ناز اور عنبرین الطاف نے بھی بدتمیزی کی شکایت کی۔
عادیہ ناز کے مطابق انہوں نے دست درازی کرنے پر ایک لڑکے کو فوراً ہی جوابی تھپڑ مارا، اس موقع پر کیمرہ مین رمیز ان کو گاڑی تک بحفاظت لانے میں کامیاب ہوگئے۔ عنبرین الطاف کا بیان ہے کہ جب وہ بھگدڑ کے مناظر کو کیمرے میں قید کرنے گئیں تو جلسے کے کارکنان نے انہیں گھیر لیا، اس دوران رپورٹر چاند نواب انہیں بچانے پہنچے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں صحافیوں خصوصاً خواتین رپورٹرز کو ہراساں کرنے کے واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں۔ 27 مارچ کو ایک خاتون صحافی کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے کی کوریج کے دوران کارکنوں کی جانب سے ہراساں کرنے اور رپورٹنگ سے روکنے کا واقعہ پیش آیا جس پر راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) نے پی ٹی آئی جلسے میں خاتون صحافی کو ہراساں کرنےکی مذمت کی۔
عظیم الشان جلسے کے خمار میں مبتلا سیاسی قیادت عموماً ایسے واقعات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جہاں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود ہو اور قوم کے وسیع تر مفاد کی بات ہورہی ہو وہاں اگر ہراسانی کے ایسے 'چھوٹے موٹے' واقعات رونما ہوں تو معمولی بات ہے۔ سیاسی قیادت کی جانب سے ایسے واقعات کو خاطر میں نہ لانے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں جس کا ایک لازمی نتیجہ صحافیوں خصوصاً خواتین کی آزادانہ کارکردگی پر قدغن کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
کراچی جلسے کی کوریج کرنے والی خواتین صحافیوں کے ساتھ سیاسی کارکنوں کی بدسلوکی، تشدد اور ہراساں کرنے کے عمل کی صحافتی تنظیموں نے سخت الفاظ میں مذمت کی۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے کراچی پریس کلب سے مشترکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس بلانے کی درخواست کی نیز میڈیا ہاؤسز سے کہا کہ اس قسم کے عوامی اجتماعات میں خواتین رپورٹرز کو کوریج کے لیے بھیجنے سے گریز کیا جائے۔ صحافتی تنظیم کی اس آخر الذِکر بات نے ہمیں سوچ میں مبتلا کردیا ہے۔
اس شہر میں رپورٹنگ کرتے ہوئے ہمیں 20 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سیاسی و سماجی ہر طرح کے اجتماعات بحیثیت خاتون رپورٹر بغیر کسی پریشانی کے کور کیے ہیں۔ اگرچہ ان جلسے جلوسوں میں بھی 'جیالوں' کی دھما چوکڑی اور 'قائدِ تحریک کے کارکنوں' کا جنون عروج پر ہوتا تھا مگر صحافیوں خصوصاً خواتین رپورٹرز سے بدسلوکی کا تصور بھی نہیں تھا۔
تو آخر کیوں ہماری تہذیب کا دائرہ اب اس قدر تنگ ہوگیا ہے کہ خواتین رپورٹرز کے لیے سیاسی اجتماعات غیر محفوظ ہونے کی بنا پر ممنوع قرار دے دیے جائیں؟ سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو یہ سوال مزید تنگ کرتا ہے۔
ٹوئٹر پر متاثرہ رپورٹر زم زم سعید کی پوسٹ دیکھتے ہوئے کمنٹس پر نظر ڈالی تو اس میں انہیں ہی قصوروار ٹھہرایا گیا تھا کہ 'خاتون رپورٹر آخر مردوں کے پورشن میں کیوں گئی'۔ رپورٹر کے چینل کی مذمت کرتے ہوئے نہایت بدزبانی سے کہا جارہا تھا کہ وہ اسی سلوک کی 'سزاوار' ہے۔ حسبِ معمول تنقید کرنے والوں نے متاثرہ رپورٹر کی ہی 'ٹرولنگ' شروع کردی تھی۔
ٹوئٹر پر مخالفین کی ٹرولنگ کا رحجان، جسے عرفِ عام میں گالم گلوچ کہہ سکتے ہیں، خصوصاً خواتین صحافیوں کے خلاف اخلاقی اقدار کی تمام حدیں پھلانگ چکا ہے۔ شاعر کے الفاظ میں یہ سوشل سائٹ ہمارے ہاں اب یہ نقشہ پیش کرتی ہیں کہ:
یہاں پگڑی اُچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں
ٹوئٹر پر اختلافی نقطہ نظر کا اظہار عام طور پر مغلظات بکتے ہوئے کیا جاتا ہے، سیاستدانوں کے بعد سب سے زیادہ نشانہ صحافی ہی بنتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو 'حجاب میں لپٹی طوائف' اور 'خاتونِ اوّل' جیسے القابات دیے جاتے ہیں۔ان کی فوٹو شاپ کی گئی شرمناک تصاویر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ کسی بھی صحافی کی ٹوئٹ مخالفین کی طرف سے دشنام طرازی پر مبنی جوابی ٹویٹ سے محفوظ نہیں رہتی جبکہ خواتین کی براہِ راست کردار کشی شروع کردی جاتی ہے اور انہیں گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔
بیشتر خواتین ایسے غلیظ ٹرولز کا جواب نہیں دے پاتیں، اگر چند ایک 'جوابی بدزبانی' پر اتر آئیں تو اس صورت میں ان کے حامی اور مخالفین دونوں کی جانب سے گالم گلوچ کا وہ بازار گرم ہوتا ہے کہ آپ کا ٹوئٹر پر ٹھہرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ٹوئٹر پر ٹرولنگ ہو یا ٹرینڈنگ سب کچھ ایک مہم کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ 'بریگیڈ'موجود ہیں جو اپنی اپنی جماعت کے حق میں اور مخالفین کے خلاف 24 گھنٹے مصروف ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے حامیوں کو ہتک آمیز القابات سے نواز رکھا ہے اور ٹوئٹر پر انہی الفاظ کی تکرار نظر آتی ہے۔ ماضی میں بھی سیاسی کارکنوں کو مختلف نام دیے جاتے تھے جیسے ملکی سیاسی پارٹیوں میں سب سے زیادہ مستعمل لفظ 'جیالا' رہا ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے مخصوص ہے۔ جیالے اس لفظ پر فخر کا اظہار کرتے ہیں جبکہ مخالفین انہیں جذباتی پن کا طعنہ دینے کے لیے بھی یہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جیالے کے مقابلے میں مسلم لیگی کارکنوں نے خود کو متوالے کہلانا شروع کردیا تھا۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑی جو بہت سی اقدار کو اڑا لے گئی۔ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے مسلم لیگ (ن) والوں کو 'پٹواری' کہنا شروع کردیا، اس طرح وہ ان کی مبیّنہ کرپشن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں ن لیگی دو ہاتھ مزید آگے نکلے اور انصافینز کہلانے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کو 'یوتھیے' کا نام دے ڈالا۔ پی ٹی آئی یوتھ کو اپنی طاقت قرار دیتی ہے، اور مسلم لیگ (ن) نے اسے گالی کی صورت میں ڈھال دیا۔ ٹوئٹر پر مرد و خواتین اس لفظ کا سرِعام استعمال کرتے ہیں اور اخلاقیات کا جنازہ دھڑلے سے نکالتے ہیں۔ تہذیبی اقدار کے پاسدار اس عالم میں دل گرفتہ ہیں۔
1965ء میں کراچی یونیورسٹی سے صحافت کی پہلی خاتون گریجویٹ، ڈان اخبار کی پہلی خاتون رپورٹر اور جناح یونیورسٹی کی ڈین آف آرٹس (ریٹائرڈ) پروفیسر شاہدہ قاضی اسے معاشرتی تہذیب کی ترقی معکوس قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گزشتہ ایک عشرے میں سیاسی طور پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا ہے جس نے اخلاقی اقدار کو ملیا میٹ کردیا ہے‘۔
شاہدہ قاضی کہتی ہیں ’میں 1960ء کی دہائی کے وسط میں رپورٹنگ کا آغاز کرنے والی پہلی خاتون تھی۔ میں نے ڈان اخبار اور پی ٹی وی پر کام کیا اور اس دور میں سیاسی کے بجائے سماجی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھیں۔ خواتین کی بہت سی تنظیمیں تھیں، کانفرنسیں، سیمینارز اور دیگر بہت سے پروگرام ہوتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوس بھی ہوتے تھے، میں یہ نہیں کہوں گی کہ خواتین کو ہراسانی کا سامنا نہیں تھا، ان سے صنفی امتیاز بھی برتا جاتا تھا لیکن آج جس طرح خواتین صحافیوں سے بدتمیزی کی جاتی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مجھے تنگ کرنے کے لیے 'مینا بازار رپورٹر' کہہ دیا جاتا تھا کیونکہ میں خواتین کی بیٹ کور کرتی تھی۔ مرد کولیگ خواتین کی عزت کرتے تھے اور نیوز روم میں خواتین کی موجودگی کے دوران غیر شائستہ گفتگو نہیں کی جاتی تھی'۔
شاہدہ قاضی اخلاقی گراوٹ کا ذمہ دار الیکٹرانک میڈیا اور موجودہ سیاسی جماعتوں میں عدم برداشت کے رحجان کو قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ٹی وی چینلز نے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے سیاستدانوں کی آن اسکرین آپس میں بدتمیزی اور گالم گلوچ کو فروغ دیا ہے، مسلسل اس طرح کی نشریات دیکھتے رہنے سے قوم کا اخلاق تباہ ہورہا ہے'۔
شاہدہ قاضی نے پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی نوجوانوں میں اشتعال انگیزی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ 'لیڈران جس طرح کی زبان استعمال کرتے اور جو انداز اختیار کرتے ہیں وہی ان کے حامی بھی اپنالیتے ہیں۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو سیاست میں ہمیں کیسے کیسے وضع دار نام نظر آتے تھے، نوابزادہ نصراللہ، تاج حیدر، این ڈی خان، حفیظ پیرزادہ اور کئی دیگر حضرات جو نہایت شائشتہ انداز میں گفتگو کرتے تھے'۔
انہوں نے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور نگراں وزیرِاعظم ملک معراج خالد کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 'ان کی سادگی و وضع داری کا میں نے خود مشاہدہ کیا۔ میں ان دنوں لاہور میں تھی اور مسز معراج خالد کو ذاتی طور پر جانتی تھی۔ وہ ٹیچر تھیں، جب ان کے شوہر وزیرِاعظم بنے تو اس وقت بھی وہ معمول کے مطابق رکشہ میں اسکول جاتی تھیں'۔ ہمارے سامنے سیاست میں ایسے کرداروں کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ شاہدہ قاضی کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں بہتری لانے کے لیے میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاستدانوں کو بہتر حکمتَ عملی اپنانا ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں اخلاقی گراوٹ کب در آئی، اس حوالے سے اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو تاریخ ہمیشہ سے سیاستدانوں کے اپنے مخالفین کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں کی گواہی دیتی ہے، البتہ ابتدائی دور کے پاکستان میں انتخابی سیاست میں آنے والی خواتین کے لیے مجموعی طور پر ایک وضع داری کا ماحول تھا۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف انتخابات میں جب کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو قوم میں ان کے باعزت مقام کے پیش نظر ان کے شخصی وقار کو تو نشانہ نہیں بنایا گیا البتہ ایک عورت کی حیثیت سے ان کی صنف کو ہدف بناتے ہوئے مارشل لا قوتوں نے عورت کی حکمرانی غیر شرعی قرار دلوانے کے فتوے ضرور حاصل کرلیے تھے۔
البتہ محترمہ فاطمہ جناح کے بعد انتخابی سیاست میں متحرک محترمہ بے نظیر بھٹو کو تمام تر اوچھے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 1988ء میں جب بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی نے جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو ان کی کردار کشی کی مہم کا بھی آغاز ہوگیا۔ نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد نے لاہور شہر پر چھوٹے ہوائی جہاز سے ایسی تصویریں گرائیں جن میں بے نظیر بھٹو کو ساحل سمندر پر غسل آفتابی کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یہ بے نظیر بھٹو کی زمانہ طالبِ علمی کی تصاویر تھیں۔ ان میں وہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ جینز، شرٹ میں کھڑی یا بیٹھی تھیں یا گٹار بجاتی نظر آرہی تھیں۔
سیاسی مخالفین نے بیگم نصرت بھٹو کو بھی نہیں بخشا اور ان کی سابق امریکی صدر جیرالڈ فورڈ کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی ایک پارٹی میں رقص کرتے ہوئے تصاویر میڈیا کو جاری کی گئیں۔ ان تصاویر پر نہایت گمراہ کن عنوانات درج کیے جاتے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کا سامنا، اس وقت کے نو آموز سیاستدان اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو بھی کرنا پڑا تھا جب ان کی اہلیہ جمائما خان کی کردار کشی کی گئی۔ عمران خان یہ بات آج تک نہیں بھولے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ موجودہ مفاہمت کے ماحول میں اگرچہ پیپلز پارٹی ماضی کی اس تلخ یاد کو فراموش کیے رکھتی ہے لیکن ہم عصر اپوزیشن اسے گاہے بگاہے یاد دلاتی رہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو بھی اپنے ان ہتھکنڈوں کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے جس کا سامنا اسے خفت کے ساتھ کرنا پڑتا ہے۔
جلسے جلوسوں میں رپورٹرز خصوصاً خواتین سے بدتمیزی کا رجحان ہمیں پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں سے شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ 2013ء میں اس جماعت کی ایک ریلی کے دوران صحافی کترینہ حسین نے بدتمیزی کی شکایت کی تھی۔ کترینہ حسین کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ریلی پر ان پر یہ حملہ بہت تکلیف دہ تھا مگر جب انہوں نے واپس آکر سوشل میڈیا پر اس پر بات کی تو ان کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہوئے مزید زبانی حملے کیے گئے۔ کترینہ حسین کے مطابق آن لائن حملوں اور ٹرولنگ کی اتنی ہی تکلیف تھی جتنی اس حملے کی تھی جو ریلی میں ہوا تھا۔
کترینہ کے مطابق ان پر حملے کے بعد عمران خان نے 'ٹوئٹر پر معذرت کی تھی جس سے مجھے انہی کی پارٹی کے ٹرولز کو چُپ کروانے میں کچھ مدد ملی۔ مگر یہ اتنا تکلیف دہ مرحلہ تھا کہ اس سے نکلنے میں مجھے ایک سال لگا'۔ کترینہ کے نزدیک ٹرولنگ اتنی ہی بُری چیز ہے جتنا ایک جنسی حملہ یا ذات پر کیا جانے والا حملہ ہے۔
صحافی کترینہ حسین کو ہراساں کرنے کے واقعے کا اگرچہ سیاسی قیادت کی جانب سے نوٹس لیا گیا لیکن اس کے تدارک کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ نتیجتاً 2013ء کے مقابلے میں اب ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
خواتین صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے زبانی اور جسمانی حملے ان کے کام میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ نجی چینل سے وابستہ رپورٹر مونا صدیقی اس بارے میں رائے دیتی ہیں۔ مونا گزشتہ 16 سال سے فیلڈ میں رپورٹنگ کررہی ہیں اور جلسے جلوس اور ریلیاں کور کرتی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'اپنے صحافتی کیریئر میں سیاسی جلسوں کی کوریج کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں جلسوں میں خواتین کے لیے علیحدہ انکلوژر کا انتظام کرتی ہیں۔ 16 اپریل کو میں نے شام تک پی ٹی آئی کا جلسہ کور کیا تھا، منتطمین نے سیکورٹی مقاصد کے لیے مردانہ حصے میں آہنی باڑ لگا رکھی تھی'۔
مونا کا کہنا ہے جلسے کے انتظامات میں کوتاہی نہیں تھی۔ البتہ سیاسی قیادت کو اپنے کارکنوں کو سختی سے ڈسپلن کا پابند کرنا چاہیے ۔مونا صدیقی نےمثال دی کہ کراچی میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے ہزاروں کے اجتماعات میں بہترین نظم و نسق برقرار رکھا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے جلسے اگرچہ ہلڑ بازی کا شکار ہوتے ہیں مگر خواتین سے بدتمیزی نہیں کی جاتی۔
مونا صدیقی کا کہنا ہے کہ کراچی کے جلسے میں خواتین صحافیوں سے بدتمیزی کوئی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کراچی میں عورت مارچ کے دوران بھی ایک چینل کی رپورٹر کو مظاہرین نے بدتمیزی کرتے ہوئے کوریج سے روک دیا تھا۔ مونا صدیقی کہتی ہیں کہ یہ دراصل چینلز کی پالیسیاں ہیں جو فیلڈ میں کام کرنے والے رپورٹرز خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین کے لیے مسائل کا باعث بن رہی ہیں۔
مونا صدیقی نے کہا کہ 'موجودہ حالات میں تمام چینلز کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی جانب واضح جھکاؤ رکھتے ہیں جس کا اظہار ٹاک شوز میں بیٹھے اینکرز مسلسل کررہے ہوتے ہیں۔ مخالف جماعتوں کے کارکن اس بنا پر ناراض ہوتے ہیں اور ان کی یہ ناراضگی اور غصہ فیلڈ میں موجود رپورٹرز کو جھیلنا پڑتا ہے۔ خواتین رپورٹرز آسان ہدف ہیں اس لیے ان کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے'۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے فروغ کے اس دور میں ملک میں تہذیبی روایات اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کی ذمہ داری بہت حد تک انہی افراد پر عائد ہوتی ہے جو اس میڈیا پر تسلط رکھتے ہیں۔ وہ افراد جو 24 گھنٹے عوام کی نظروں کے سامنے موجود رہتے ہیں، خواہ سیاستدان ہوں، صحافی، تخلیق کار یا فنکار سب کو مٹتی ہوئی معاشرتی اخلاقیات کو بچانے میں اپنی زمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔