نقطہ نظر

بلوچستان کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟

17 سال سے جاری شورش سے یہ بات سامنے آئی کہ جابرانہ اقدامات اور دکھاوے کے پیکج ناراض بلوچوں کو سیاسی دھارے میں لانے میں ناکام رہے

وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد کئی پالیسی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان میں یہ عزم بھی شامل تھا کہ صرف پنجاب کی نہیں بلکہ تمام صوبوں کی ترقی پر توجہ دی جائے گی۔ اگرچہ یہ خوش آئند بات ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کو خود پر سے 'پنجاب کی پارٹی' ہونے کی چھاپ ختم کرنے کے لیے زبانی دعوؤں سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔

اگرچہ 2008ء کے بعد سے خود مسلم لیگ (ن) نے بھی اس چھاپ کو ختم کرنے اور ایک وفاقی شبیہہ کے اظہار کی کوشش کی لیکن اس جماعت نے علاقائی سیاست کو بھی اختیار کیا اور پنجاب میں اپنی مقبولیت کو مستحکم کرنے کے لیے ملکی سیاست کو قربان کیا۔

چھوٹے صوبوں کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ مقامی اشرافیہ کو خوش رکھا جائے اور چھوٹی علاقائی جماعتوں کے نمائندگان کے ساتھ اتحاد بنائے جائیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کے دبدبے کی تو کامیابی سے مزاحمت کرتی رہی لیکن اشرافیہ پر مرکوز اس کی حکمتِ عملی سے عوام کی طرزِ زندگی بہتر نہیں ہوئی۔ نتیجے کے طور پر پنجاب کے باہر مسلم لیگ (ن) کے پنجاب کی جماعت ہونے کا تاثر اب بھی مضبوط ہے۔

مزید پڑھیے: نئی حکومت کے لیے ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘

پنجاب کے باہر بھی عوامی حمایت کے حصول کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں بننے والی موجودہ حکومت کو چھوٹے صوبوں خاص طور پر سابقہ فاٹا اور بلوچستان کی معاشرتی و معاشی ترقی کو ترجیح دینا ہوگی۔

بلوچستان کے حوالے سے حکومت کا منصوبہ کچھ اس طرح کا ہونا چاہیے:

سب سے پہلی ترجیح تو سیاسی مفاہمت اور قیامِ امن کو دینی چاہیے۔ صوبے میں جاری لسانی کشیدگی کے پُرامن حل تک یہاں معاشی ترقی کا کوئی بڑا منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے حکومت کو بلوچستان میں جاری کشیدگی کی پیچیدگیوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ یہاں جنوبی بلوچستان میں ایک کم پیمانے کی لسانی شورش جاری ہے جبکہ وسطی اور شمالی بلوچستان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی عسکریت پسندی نظر آتی ہے۔

اس منظرنامے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بلوچستان میں بحالی امن کے لیے ایک جامع اور مختلف حکمتِ عملی اختیار کرنی پڑے گی۔

مذہبی اور فرقہ وارانہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے قومی سلامتی پالیسی اور خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہمارے سیکیورٹی ماہرین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے بغیر بلوچستان اور خیبر پخونخوا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ہماری موجودہ افغان پالیسی تو افغانستان کو ایک اور علاقائی پراکسی جنگ کا میدان بناسکتی ہے۔

اس کے علاوہ ہمیں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سعودی عرب کی جانب جھکاؤ کے بجائے ایک توازن قائم کرنا ہوگا۔ اور آخری بات یہ کہ فرقہ وارانہ اور مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کو کسی قسم کی چھوٹ نہیں دینی ہوگی۔

بلوچستان میں لسانی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت ہوگی۔ 17 سال سے جاری شورش سے یہ اہم بات سامنے آئی ہے کہ جابرانہ اقدامات اور دکھاوے کے ڈیولپمنٹ پیکج دونوں ہی ناراض بلوچوں کو سیاسی دھارے میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پُرتشدد تنازعات کا دوبارہ سر اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف سیکیورٹی پر توجہ دینے سے امن کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:

مزید پڑھیے: بلوچستان آج اس نہج تک کیسے پہنچا؟

دوسرا اہم معاملہ یہ ہے کہ قدرتی اور ساحلی وسائل کے حوالے سے بلوچوں کے خدشات دُور کیے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ:

مزید پڑھیے: صدیوں پرانے فن کو زندہ رکھنے والی بلوچ خواتین

تیسری اہم بات یہ کہ غربت کے خاتمے اور سرحد پر باڑ لگانے سے لوگوں کے ذریعہ معاش پر پڑنے والے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی بھی ضرورت ہے جیسے کہ:


یہ مضمون 21 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رفیع اللہ کاکڑ

لکھاری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پبلک پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ اسپشلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔