مقبول بیانیہ بمقابلہ غیر مقبول فیصلے
تحریکِ عدم اعتماد کے سارے عمل کے دوران جو دھول مٹی اڑی تھی وہ اب بیٹھ چکی ہے۔ ابر آلود مطلع تقریباً صاف ہوچکا ہے اور نئی حکومت کی کابینہ کی تشکیل کا آخری مرحلہ بھی تقریباً اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، مگر یہ مطلع کب تک صاف رہتا ہے اس بارے میں ہم ابھی کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔
’مجھے کیوں نکالا‘ نامی بچے کا جنم پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ہوا، چلنا بھی اسی جماعت میں سیکھا مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بچہ بھاگتا ہوا عمران خان کی گود میں چلا گیا ہے۔
اگر حالیہ دنوں کی ملکی سیاست کو ایک سکّے سے تشبیہ دی جائے تو اس وقت عمران خان کا بظاہر مقبول بیانیہ ایک رخ ہے اور نئی حکومت کی مجبوریاں اور غیر مقبول فیصلے سکّے کا دوسرا رخ۔
مقبول بیانیہ
- امریکی غلامی سے آزادی
- امپورٹڈ حکومت نامنظور
- کرپٹ اشرافیہ اور 30 سال سے آزمائے لوگ نامنظور
یہ وہ نعرے ہیں جو عمران خان کی سیاست کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی کہ انہوں نے 3 اپریل کو بذریعہ ڈپٹی اسپیکر آئین کی کھلے عام خلاف ورزی کی، یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی کہ عدالت سے ان کے خلاف کلین سویپ فیصلہ آیا۔ کپتان آئین شکنی کا باؤنسر کھا کر، تحریک عدم اعتماد کے یارکر سے آؤٹ ہونے کے بعد گراؤنڈ سے باہر تو چلا گیا ہے مگر باؤنڈری لائن کے اس پار پیڈ باندھے اور ہیلمٹ پہنے ابھی بھی دوبارہ کھیلنے کو بضد ہے، اور کراؤڈ مسلسل اس کی آواز میں آواز ملا رہا ہے۔
خان صاحب کی طرزِ حکمرانی سے لاکھ اختلاف مگر طرزِ سیاست کا فن ان کو بخوبی آگیا ہے۔ وزیرِاعظم ہاؤس سے نکل کر ان کا رخ بنی گالہ کے بجائے عوام کی طرف ہوگیا۔ جیت کی صورت میں سڑکوں پر جو خوشیاں آج کے حکومتی اتحاد کو منانا چاہیے تھیں وہ عمران خان ہار کی صورت میں منا رہے ہیں۔
یہ بات تو پوری طرح کھل کر سامنے آگئی ہے کہ سازشی خط دراصل ایک مراسلہ ہے اور سازش سے اس کا دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی غلامی سے نجات اور امریکا مردہ باد کے نعرے دہائیوں سے اس قوم کا خون گرماتے رہے ہیں۔ شہر شہر ہونے والے کامیاب جلسے، لاکھوں ٹویٹس کی مدد سے ٹاپ ٹرینڈ رہنے والا ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ کا نعرہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ نعرہ بک رہا ہے۔
مگر اس ساری صورتحال کے باوجود سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اس عوامی دباؤ کو جلد انتخابات میں بدل سکتے ہیں تو جواب ہے نہیں، یہی وہ چیز ہے جو خان صاحب فوراً چاہتے ہیں مگر ان کے بس میں نہیں۔
اب یہ فیصلہ نئی حکومت نے کرنا ہے اور اپنے سیاسی فوائد کو سامنے رکھ کر کرنا ہے۔ لہٰذا عمران خان کی پوری کوشش ہوگی کہ بھرپور عوامی اجتماعات کیے جائیں، دباؤ بڑھایا جائے اور اگر اس سے بھی دال نہ گلے تو میرا تجزیہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کی کال دیں گے اور شہرِ اقتدار میں کچھ دن بسیرا کریں گے تاکہ یہ بیانیے قوم کے ذہنوں پر پوری طرح سے نقش ہوجائیں۔
غیر مقبول اور مجبور فیصلے
یہ حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی ماضی کی اپوزیشن اور آج کی حکومتی جماعتوں کی بہت بڑی کامیابی ہے مگر کچھ حقائق اور بھی ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔
کمزور معیشت اور بڑھتی مہنگائی
پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں نے پوری تحریک کی بنیاد ہی عمران حکومت کی معاشی بدحالی اور بڑھتی مہنگائی پر رکھی تھی، اور اس وقت حقیقت بھی یہی تھی کہ رائے عامہ بہت تیزی سے عمران مخالف جا رہی تھی، جتنے بھی سروے آرہے تھے سب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مقبولیت کم ہوتی دکھائی دے رہی تھی، مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ نئی حکومت خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف پچھلی حکومت کی ساری بُرائیوں کا بوجھ خود اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔
یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ ان کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے وزارت سنبھالنے کے اگلے روز ہی یہ واضح کردیا ہے کہ تیل بجلی کی قیمتیں اوپر لے جانا مجبوری ہے اور اگلے 4، 5 ماہ مشکل ہوں گے۔
ان بیانات کے ساتھ شہباز انتظامیہ کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگلے 4، 5 ماہ ہی ان کے لیے Do or die والے ہیں، اگر ان پر مہنگائی اور بیڈگورننس کا داغ لگ گیا تو یہ اگلا ایک سال دھلنے والے نہیں اور اس کی بہت بڑی سیاسی قیمت چکانا پڑسکتی ہے۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اچھے وقت میں سب ساتھی ہوتے ہیں، لیکن بُرا وقت آئے گا تو آپ کے اتحادی بھی آپ کا دفاع نہیں کریں گے، اور دفاع کریں بھی کیوں اگر آپ کی ناکامی سے ان کو سیاسی فائدہ مل رہا ہو تو وہ صرف خاموش تماشائی کا کردار ہی ادا کریں گے۔
لہٰذا اگر آج شہباز شریف اکثر جگہ یہ شعر پڑھتے نظر آرہے ہیں کہ
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
تو اس بات کا بھی امکان ہوسکتا ہے کہ وہ مستقبل میں یہ شعر پڑھتے نظر آئیں
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
اتحادی جماعتوں کا بوجھ
ایک ایسے وقت میں جب حکومت کی ساری توجہ کارکردگی پر ہونی چاہیے ایسا لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کی توانائی کا بیشتر حصہ اتحادیوں پر صرف ہوگا۔ ایک کو منائیں گے تو دوسرا ناراض ہوگا، دوسرے کو منائیں گے تو تیسرا۔
اتحادیوں کی طرف سے گلے شکوں کا پہلا غیر حتمی اور غیر سرکاری نتیجہ اسی وقت سامنے آگیا جب وزیرِاعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں پہلا خطاب کیا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما وسیم اختر پارلیمنٹ کی گیلری سے اپنے ہی اراکین پر برستے نظر آئے کہ شہباز شریف نے تقریر میں سندھ کے حوالے سے ہمارا نام کیوں نہیں لیا۔
اس کے بعد کابینہ میں تاخیر سے بھی بہت سے سوالات نے جنم لینا شروع کردیا۔ 9 دن کی عرق ریزی کے بعد اللہ اللہ کرکے جب کابینہ کے لیے حتمی نام طے ہوئے تو اس میں بھی بہت سے مسائل اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے گلے شکوے کھل کر سامنے آئے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) چاغی واقعے پر ناراض ہوگئی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کوئی بڑا عہدہ نہ ملنے پر ناراض نظر آئی۔ مولانا فضل الرحمٰن کے کچھ تحفظات کی خبریں بھی آنے لگیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) جو سب جماعتوں کی طرف سے ضامن کا کردار ادا کر رہی تھی اس نے بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں گلے شکوے شروع کردیے۔
پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا حلف نہ اٹھانا اور پھر میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے اچانک لندن چلے جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حالات گڑبڑ ہیں اور تو اور شنید یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر موجود مریم نواز گروپ بھی کابینہ سے متعلق زیادہ خوش نہیں ہے۔
وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کی مجبوریاں
کابینہ کی اب تک کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں مسلم لیگ (ن) کا اپنا حصہ آدھے سے بھی کم ہے، یعنی اکثریت اتحادیوں کی ہے جس میں 8 مختلف سیاسی جماعتوں کے وزرا اور مشیر ہیں۔ وفاقی کابینہ میں شامل ان 8 سیاسی جماعتوں کے وزرا اور مشیران کے باس بظاہر تو شہباز شریف ہیں مگر یہ لوگ اپنے باس سے زیادہ جوابدہ اپنی پارٹی کے قائدین کو ہوں گے۔ انہوں نے اپنی پارٹی مفادات کو سامنے رکھ کر وزارتیں چلانی ہیں اور ایسے چلانی ہیں جس کا براہ راست فائدہ ان کو اگلے انتخابات میں ہو۔
اب اس ساری صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ سوال بنتا ہے کہ اگلے آنے والے چند دنوں میں شہباز شریف کی سیاست اور ان کی کرسی کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں، پنجاب کو بڑی کامیابی سے چلا کر بھی دکھایا ہے مگر پنجاب میں ان کے ہاتھ کھلے تھے، کسی بھی وزیر کی سرزنش بلا روک ٹوک کرسکتے تھے، کسی بھی افسر کو ہاتھ کے اشارے سے گھر بھیج سکتے تھے، مگر اب صورتحال مختلف ہے کیونکہ ان کے ہاتھ بندھے ہیں، کاندھوں پر اتحادیوں کا بوجھ ہے اور وکٹری لائن ابھی بہت دُور ہے۔
دوسری جانب اگر عمران خان کا بیانیہ بھی زور پکڑتا جاتا ہے تو شہباز شریف کے لیے اس کو زیادہ دن نظر انداز کرنا مشکل ہوجائے گا لہٰذا نئے وزیرِاعظم کے پاس وقت کم ہے، چیلنجز زیادہ ہیں اور فیصلہ بھی جلد کرنا ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام کو مدت پوری کرنے دینی ہے یا جلد انتخابات کی طرف جانا ہے اور اس فیصلے میں ذرا سی بھی غلطی انہیں اور ان کی جماعت کو بڑا جھٹکا پہنچا سکتی ہے۔
وقاص علی چوہدری سال 2008 سے وفاقی دارالحکومت میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں اور آج کل ڈان نیوز کے پروگرام ’ان فوکس‘ میں بطور اینکرپرسن ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ٹویٹر پر waqasali012@ پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔