برطانیہ کی عدالت کا جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کا حکم
برطانیہ کی ایک عدالت نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو عراق اور افغانستان کی جنگوں سے متعلق خفیہ فائلوں کی اشاعت پر مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے امریکا کے حوالے کرنے کا باضابطہ حکم جاری کردیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ اب برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل پر منحصر ہے، تاہم جولین اسانج اس کے باوجود اپنی حوالگی کی منظوری کے کسی بھی فیصلے کے بعد 14 روز کے اندر اپیل دائر کر سکتے ہیں۔
وسطی لندن کے ایک مجسٹریٹ کی جانب سے سنائے گئے اس فیصلے نے برطانیہ کی عدالتوں میں طویل عرصے سے جاری قانونی کارروائی کو ایک منطقی انجام کے قریب پہنچا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی جج نے جولین اسانج کی حوالگی کی امریکی درخواست مسترد کردی
تاہم جولین اسانج کے وکلا کے پاس 18 مئی تک کا وقت ہے کہ وہ پریتی پٹیل کے سامنے جولین اسانج کی نمائندگی کریں اور ممکنہ طور پر کیس کے دیگر نکات پر مزید اپیلیں شروع کر سکیں۔
ان کے وکلا نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا کہ ابھی تک ان کی جانب سے دیگر اہم مسائل کے سلسلے میں ہائی کورٹ میں کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی ہے جو انہوں نے پہلے اٹھائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اپیل کا یہ علیحدہ عمل یقیناً ابھی شروع ہونا باقی ہے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ: وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو 50 ہفتے کی قید
عدالت کے باہر مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں ’اسانج کو حوالے نہ کرو‘ کے نعرے درج تھے اور عدالت کے باہر دیواروں پر پیلے رنگ کی ربنز لگائی گئی تھیں جن پر ’فری اسانج‘ کے ہیش ٹیگز درج تھے۔
وینزویلا سے تعلق رکھنے والی 55 سالہ صحافی کیرولینا گریٹرول نے اس فیصلے کو ’برطانیہ میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی موت کا ایک اور دن‘ قرار دیا۔