نقطہ نظر

کیا الہان عمر کا دورہ پاکستان واقعی غیر معمولی ہے؟

الہان جو کام بھی کریں اس پر لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے اور اگر کہا جائے کہ الہان تنازعات کے سبب میڈیا میں رہتی ہیں تو غلط نہیں ہوگا

امریکی کانگریس کی رکن الہان عمر پاکستان کے 5 روزہ سرکاری دورے پر ہیں اور اپنے دورے کے پہلے ہی دن وہ پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائی نظر آئیں لیکن اس کی وجہ شاید اتنی درست اور اچھی نہیں تھی۔

الہان عمر جو کام بھی کریں اس پر لوگوں کو اعتراض ضرور ہوتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ الہان عمر تنازعات کی وجہ سے میڈیا میں رہتی ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

الہان عمر پاکستان میں سرکاری دورے پر ہیں لیکن ان کی پہلی ملاقات سابق وزیرِاعظم عمران خان سے ہوئی، جو ان دنوں اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کے بیانیے کو اپنا واحد سیاسی نکتہ یا ایجنڈا بنائے ہوئے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ امریکی رکن کانگریس اور ان کے وفد کی ملاقات پاکستانی عوام کے لیے دلچسپی اور توجہ کا باعث بنی۔ عمران خان کے ناقدین نے سوال اٹھایا کہ امریکی سازش کا بیانیہ تشکیل دینے والے اب بتائیں کہ الہان عمر سے ملاقات سازش تھی یا مداخلت؟

الہان عمر نے عمران خان سے ملاقات کے بعد وزیرِاعظم شہباز شریف، صدرِ مملکت عارف علوی اور دیگر سرکاری عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن عمران خان سے ملاقات ہی سوشل میڈیا پر دلچسپی اور توجہ کا مرکز بنی رہی۔

ناقدین نے امریکی سازش پر تبصرے کیے تو پارٹی رہنماؤں نے فخر کے ساتھ ملاقات کی تصاویر اور تفصیلات شیئر کیں اور عمران خان کو اسلاموفوبیا کے خلاف کوششوں کا سب سے بڑا محرک بتایا۔

الہان عمر کی ملاقاتوں اور سوشل میڈیا تبصروں سے پہلے مناسب ہوگا کہ ان کے ذاتی پس منظر اور امریکی سیاست میں ان کے کردار اور تنازعات پر مختصر نظر ڈال لی جائے۔

الہان عمر صومالی نژاد امریکی ہیں جن کا بچپن کینیا میں تارکین وطن کے کیمپ میں گزرا اور پھر وہ اسکالر شپ کی مدد سے امریکا پہنچیں۔ 1995ء میں امریکا پہنچنے والی الہان عمر 36 سال کی عمر میں امریکی کانگریس کی رکن بنیں۔ وہ امریکی کانگریس کی پہلی مسلمان رکن بننے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں اور فلسطینی نژاد راشدہ طلیب اس اعزاز میں ان کی شریک ہیں۔ ان دونوں مسلم خواتین کی امریکی کانگریس کے 2018ء کے وسط مدتی انتخابات میں کامیابی اس لیے بھی اہم تھی کہ اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افریقی نژاد امریکیوں اور مسلمانوں سے متعلق سخت بیانات دے رہے تھے۔

الہان عمر 2016ء میں پہلی انتخابی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور منی سوٹا کی ریاستی اسمبلی کی رکن بنیں۔ اس جیت کے بعد الہان نے کہا تھا کہ ’یہ جیت اس 8 سال کی لڑکی کی ہے جو تارکین وطن کے کیمپ میں رہی، یہ جیت اس لڑکی کی ہے جسے کم سنی میں جبری شادی کرنا پڑی، یہ جیت ہر اس شخص کی ہے جسے خواب دیکھنے سے روکا گیا‘۔

الہان عمر مسلمان اور افریقی نژاد ہونے کی وجہ سے بھی امریکی میڈیا اور اپوزیشن کے نشانے پر رہتی ہیں اور وہ خود بھی ایسے بیانات دیتی ہیں جن سے تنازعات جنم لیتے ہیں اور وہ مسلسل میڈیا میں رہتی ہیں۔ الہان عمر انتخابی مہم کے اخراجات میں بے قاعدگیوں پر رقم واپسی اور جرمانے کا بھی سامنا کرچکی ہیں، ان پر ٹیکس بے قاعدگی کا بھی الزام لگا جو بعد میں درستگی ریکارڈ کے بعد ختم ہوگیا۔

الہان عمر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور یمن جنگ پر سعودی عرب کی بھی ناقد ہیں اور جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کے بائیکاٹ کی بھی اپیل کرچکی ہیں۔

ٹرمپ نے جب ایران پر پابندیاں بڑھائیں تو الہان عمر نے واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھ کر سخت تنقید کی اور کہا کہ ’مصر، عرب امارات اور بحرین کے معاملے میں آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں‘۔ سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ چین کے سلوک پر وہ چین کی بھی شدید ناقد ہیں۔ 2019ء میں شام میں ترکی کے فوجی آپریشن پر بھی الہان نے شدید تنقیدی مضمون باندھا۔ آرمینیا میں ترکوں پر نسل کشی کے الزام کی قرارداد پر بھی الہان عمر نے ووٹ کیا۔

اگست 2019ء میں الہان عمر نے ساتھی رکن کانگریس راشدہ طلیب کے ساتھ فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کرنا تھا لیکن اسرائیل نے ان کے داخلے پر پابندی لگادی کیونکہ دونوں نے فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے سبب بائیکاٹ مہم کی حمایت کی تھی۔ اسرائیلی پابندی کو صدر ٹرمپ کی آشیرباد بھی حاصل تھی جنہوں نے پابندی سے پہلے ہی ٹویٹ کی تھی کہ اگر دونوں کو دورہ کرنے دیا گیا تو اس سے اسرائیل کی کمزوری ظاہر ہوگی۔ الہان عمر نے بعد میں یہود مخالف ریمارکس پر معافی بھی مانگی تھی۔

پاکستان آنے سے پہلے الہان عمر نے ایک ویڈیو ٹویٹر پر شیئر کی تھی جس میں عیسائی اپنی مذہبی مناجات گا رہے ہیں۔ الہان نے لکھا تھا کہ ’میں سوچتی ہوں اگر میں اور میرا خاندان کسی پرواز میں اکٹھے نماز ادا کریں، تصور کیجیے اس کا اختتام کیا ہوگا‘۔ اس ٹویٹ پر بھی الہان شدید تنقید کا نشانہ بنیں اور ان کے ناقد امریکیوں نے انہیں ایک بار پھر عیسائی دشمن کا لقب دیا۔

الہان عمر امریکی خارجہ پالیسی اور فوجی پالیسیوں کی بھی ناقد ہیں۔ جون 2021ء میں الہان نے ایک ٹویٹ کی کہ 'ہم نے امریکا، حماس، اسرائیل، افغانستان اور طالبان کی جانب سے ناقابلِ تصور ظلم اور بربریت دیکھی ہے'۔ اس ٹویٹ پر بھی انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ناقدین نے کہا کہ الہان نے امریکا اور اسرائیل کو حماس اور طالبان کی صف میں کھڑا کردیا۔

الہان کی بڑی سیاسی کامیابی کانگریس سے اسلاموفوبیا کے خلاف بل منظور کروانا ہے جو دسمبر 2021ء میں ایوان نمائندگان نے منظور کیا۔ اس بل کی سینیٹ سے منظوری باقی ہے۔ بل کی منظوری کے بعد صدر کو اسلاموفوبیا پر نظر رکھنے کے لیے نمائندہ مقرر کرنا ہوگا۔ امریکی صدر بائیڈن نے بھی اس بل کی حمایت کی ہے۔

اب الہان عمر کے دورے اور اس کے مقاصد کی طرف آتے ہیں۔ الہان کا یہ 5 روزہ سرکاری دورہ ہے جس میں لاہور اور آزاد کشمیر کا دورہ بھی شامل ہے۔ اس دورے میں پہلی ملاقات عمران خان سے ہوئی جس سے یہ تاثر ملا کہ شاید وہ صرف ان سے ملاقات کی غرض سے آئی ہیں۔ جب اس تاثر کو پی ٹی آئی نے پختہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے ناقدین نے بھی سوال اٹھا دیے۔ ناقدین کے سوال تو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہیں لیکن کیا الہان عمر پاکستان کی سچی خیر خواہ ہیں اور پاکستان کے متعلق ان کی رائے مکمل مثبت ہے؟ اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں ہے۔

شاید میری بات قارئین کو کڑوی لگے لیکن اس کا ثبوت موجود ہے۔ الہان عمر نے امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کو 20 جولائی 2021ء کو خط لکھا جس میں انہیں اسلاموفوبیا پر نظر رکھنے کے لیے مندوب کی تقرری کے لیے کہا۔ اس خط میں الہان عمر نے یورپ اور دیگر مقامات پر اسلاموفوبیا کی بات کی تو اس کے ساتھ ہی پاکستان اور بحرین کو بھی نشان زد کیا۔ الہان نے لکھا کہ 'پاکستان اور بحرین میں مخصوص مسلم فرقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے'۔ الہان عمر نے امریکی کانگریس میں ایک بل بھی پیش کر رکھا ہے جس میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں پر پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Title of the document

الہان عمر نے کانگریس میں ایک اور بل پیش کر رکھا ہے جس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس مطالبے کی بنیاد جمال خاشقجی کے قتل میں ولی عہد کے مبینہ کردار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہے۔ اس کے علاوہ الہان عمر نے سعودی عرب کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کا بل بھی پیش کر رکھا ہے۔

الہان عمر نے عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف قرارداد بھی کانگریس میں جمع کروائی ہوئی ہے۔ الہان عمر ایران کی ہمدرد اور عرب ممالک کی شدید ناقد ہیں۔ الہان نے ایران پر عائد ایسی پابندیاں اٹھانے کی قرارداد بھی کانگریس میں پیش کر رکھی ہے جو پابندیاں کانگریس کی منظوری کے بغیر عائد کی گئی ہیں۔

الہان عمر کے دورہ آزاد کشمیر سے بھی لوگوں کو بہت سی امیدیں ہیں۔ ایک مضمون نظر سے گزرا جس کی سرخی تھی، 'الہان عمر: امریکی رکن کانگریس پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کیوں جا رہی ہیں اور انڈیا کو اس دورے سے کیا تشویش ہے؟'

مجھے حیرت ہے کہ کانگریس کے 535 ارکان میں سے ایک رکن اسلام آباد کیا آئی ہیں ایک جشن سا بپا ہے، اتنے بڑے ہاؤس کی ایک رکن جو پہلے ہی ہمارے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتی اس کا آنا اتنا بڑا سفارتی ایونٹ کیوں بنا دیا گیا ہے؟ جواب شاید ان کے دورے کی تکمیل اور وطن واپسی کے بعد مل جائے۔

الہان عمر کے متعارف کروائے گئے قانونی بل اور قراردادیں شاید ان کے دورے سے امیدیں رکھنے والوں کا دل توڑ دیں لیکن الہان کا دورہ کسی بھی طرح پاکستان کے لیے خاص تحفہ ہے اور نہ مددگار، کیونکہ امریکی کانگریس کے ارکان امریکی مفادات کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں لیکن الہان کے نظریات اور ان کا جھکاؤ پاکستانی مفادات کے ساتھ میل نہیں کھاتا اور ان کے دورے پر کسی بھی جماعت کا خوشیاں منانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

کیا الہان عمر ہماری خارجہ پالیسی میں کسی بھی طور پر مددگار ہیں؟ کیا چین کے خلاف ان کی مہم کا ریکارڈ پاکستان کو کوئی فائدہ دے سکتا ہے؟ کیا پاکستان اپنے کڑے وقت میں ہمیشہ ساتھ دینے والے برادر عرب ملکوں کے خلاف مہمات کی سرخیل کو سر پر بٹھانے کا متحمل ہے؟

ایک امریکی رکن کانگریس اسلام آباد آئی ہیں، تو ان کا اپنا ایجنڈا ہے۔ یقیناً امریکا پرانا اتحادی ہے اور اس کے وفد کا استقبال کرنا سفارتی آداب کا تقاضا ہے لیکن یہ کوئی ایسا دورہ نہیں جو ہمارے لیے کسی معاشی، سیاسی یا سفارتی کامیابی کی بنیاد بن سکے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔