نقطہ نظر

ادب اور عید

ان کہانیوں میں عید کی خوشیاں بھی ہیں لیکن عید صرف خوشی کے احساس کا اظہار نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور محبت کو مہمیز دینے کا نام ہے۔

عید کی خوشی مسلمانوں میں عالمگیر خوشی ہے اور دنیا کا کوئی حصہ، کوئی ملک، قصبہ یا دیہات ایسا نہیں ہوگا جہاں یہ خوشی نہ منائی جاتی ہو، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس خوشی کی اصل وجہ کیا ہے اور اس دن کو خوشی کا دن کیوں قرار دیا گیا ہے۔

اس دن کی غایت صرف اتنی ہے کہ انسان صاف ستھرا ہوکر خدا کا شکر ادا کرے، بھوکوں کو کھانا کھلائے، ناداروں کے سر پر ہاتھ رکھے، بے کسوں اور یتمیموں پر دست شفقت کا مظاہرہ کرے۔ اس سلسلے میں اردو ادیبوں نے نہایت اہم مضامین اور افسانے لکھے ہیں۔

ان کہانیوں میں عید کی خوشیاں بھی ہیں لیکن عید صرف خوشی کے احساس کا اظہار نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور محبت کو مہمیز دینے کا نام ہے۔ یہ انسانی جذبات میں تلاطم پیدا کرتا ہے۔ یہ زندگی کا وہ حسین اظہار ہے جو بنی نوع انسان کے مختلف النوع طبیعت پر مختلف اثرات پیدا کرتا ہے۔ اس خوشی کے دن نے صرف مسلمان پر نہیں بلکہ دیگر قومیتوں پر بھی دُور رس اثرات مرتب کیے ہیں اور یہ دن انسانی نفسیات اور اس کے احساس جمال میں رومانی کیفیات کو جنم دیتا ہے۔

اس سلسلے میں اردو کے ایک بڑے افسانہ نگار منشی پریم چند کا افسانہ ’عید گاہ’ اس کی سیاسی اور روحانی سطح کو کئی اور حوالوں سے دیکھنے کی جانب توجہ دلاتا ہے۔ یہ کہانی اپنی معنویت کے اعتبار سے تخلیق کی بلند ترین سطح پر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماورائی کیفیت پیدا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

پریم چند کے افسانوں کا بنیادی موضوع غربت ہے، خاص کر ہندوستان کے غریب طبقوں کی مفلوک الحالی کا نقشہ ان کی تحریروں کا مرکزی موضوع ہے لیکن ’عید گاہ‘ میں ایک غریب کردار نے اس دن کی نسبت سے خودداری، نفس کشی اور ذہانت کے ایسے احساس کو فروغ دیا جس سے اس دن کی سماجی اور روحانی کیفیت کچھ کی کچھ ہوکر رہ گئی ہے۔

عیدگاہ کی کہانی یہ ہے کہ حامد ایک گاؤں میں اپنی غریب دادی امینہ کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے ماں باپ کا انتقال ہوچکا ہے۔ عید آگئی ہے اور امینہ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ حامد کے لیے کپڑے بناسکے اور جوتے خرید سکے۔ حامد عیدگاہ جانے کی ضد کرتا ہے تو وہ اسے عیدی کے طور پر تین پیسے دیتی ہے۔ حامد کے تمام دوستوں کے پاس عیدی کے کافی پیسے ہیں۔ حامد اپنے دوستوں کے ساتھ عیدگاہ کے بازار میں پہنچتا ہے تو وہاں کھانے پینے کی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ سب بچے کچھ نہ کچھ کھانے پینے لگتے ہیں، حامد کا دل بھی کچھ نہ کچھ کھانے کو چاہتا ہے، مگر اس کے پاس صرف تین پیسے ہیں۔ اس کی یہ محرومی اسے دلیل ایجاد کرنے پر مائل کرتی ہے، اور وہ خود کو سمجھاتا ہے کہ فلاں چیز سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے اور فلاں شے کھانے سے چٹورپن کی عادت پڑجاتی ہے۔ حامد کو بچے کیا بڑے بھی جھولے جھولتے نظر آتے ہیں، اور بعض بڑے حامد کو جھولا جھلانے کی پیشکش کرتے ہیں، مگر وہ سوچتا ہے کہ میں کسی کا احسان کیوں لوں؟

حامد کے دوست کھلونے خریدنے لگتے ہیں، حامد کا دل بھی کھلونے خریدنے کو چاہتا ہے، مگر اچانک اسے خیال آتا ہے کہ اس کی دادی امینہ کے پاس دست پناہ یعنی چمٹا نہیں ہے، وہ چولہے پر روٹیاں پکاتی ہیں تو ان کا ہاتھ جل جاتا ہے۔ چنانچہ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کھلونے نہیں بلکہ چمٹا خریدے گا، اور وہ بالآخر چمٹا خرید لیتا ہے۔ وہ چمٹا خرید کر اپنے دوستوں کے پاس پہنچا تو دوست اس کا مذاق اڑانے لگے، کہنے لگے کہ حامد نے کھلونے کے بجائے چمٹا خریدا ہے۔ مگر حامد نے چمٹے کی تعریف میں ایسی تقریریں کیں کہ چمٹا دیکھتے ہی دیکھتے ’ولن‘ سے ’ہیرو‘ بن گیا، اور تمام بچوں کو اپنے کھلونے چمٹے کے سامنے حقیر نظر آنے لگے۔ حامد چمٹا لے کر گھر پہنچا تو امینہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے چار سال کے پوتے نے کیسی نفس کشی کی ہے اور اسے اپنی دادی سے کیسی محبت ہے۔

منشی پریم چند نے جس ہندوستان میں حامد کے کردار کو عیدگاہ سے واپسی پر چمٹا خرید کر واپس کیا تھا اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلم جمشید پوری نے جدید ہندوستان میں ’عیدگاہ سے واپسی' نامی کہانی لکھی۔ یہ کہانی قدیم روایت کا تسلسل ہے جو معنی خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بدلتی ہوئی مذہبی عدم رواداری کو پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔

کہانی کے آغاز سے ہی منشی پریم چند کا حامد جو اپنے بچوں اور پوتوں کے ساتھ عید کی تیاری میں مگن ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ نفرت کیا ہوتی ہے، اس نے تو بلدیو کے بچوں کو بھی عیدی دی تھی۔ بس واقعہ یہ ہے کہ حامد جس گاؤں میں رہتا ہے اس سے 5 کلو میٹر دُور عیدگاہ ہے۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے ملک کی بگڑتی صورتحال کے باعث حامد کو نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے جانے سے منع کرتے ہیں، مگر حامد کو تو یہ پتا ہی نہیں کہ نفرت کیا چیز ہوتی ہے۔ افسانے کے اس حصے سے آپ اس کہانی کااندازہ لگا سکتے ہیں۔

'ملک پر بڑا بُرا دن آیا تھا۔ سرخ آندھی اس بار ایودھیا سے اٹھی تھی جو آناً فاناً پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ ہندو مسلم منافرت… ایک دوسرے کے خون کے پیا سے لوگ… عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کا جنون… کیا عبادت گاہوں کی مسماری سے کوئی قوم ختم ہوجاتی ہے؟ یہ وہی ہندو مسلم تھے جنہوں نے شانے سے شانہ ملا کر ملک کو آزاد کرایا تھا۔ آج کیا ہوگیا ہے ان کو؟ کیوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہیں؟'

اس کہانی کا انجام بڑا ہی دردناک ہوتا ہے۔ منشی پریم چند کا حامد جو کبھی چمٹا لاکر مہر و محبت کی داستان بن جاتا ہے، اب اس جدید ہندوستان میں وہی حامد مذہبی منافرت کے ہاتھوں آسودہ خاک ہوجاتا ہے۔

'پلک جھپکتے ہی ساجد کو اپنی گود میں اٹھالیا اور جیسے ہی ایک طرف کو بھاگنا چاہا مکھیا کے بیٹے بیر پال کی دو نالی سے نکلنے والی ایک بے رحم گولی نے ساجد کو نشانہ بنالیا۔ ساجد کے جسم کو پار کرتی گولی میاں حامد کے سینے میں پیوست ہوگئی تھی۔ دونوں زمین پر گر پڑے اور خون کا فوارہ دونوں جسموں سے بلند ہورہا تھا۔ زمین ساکت تھی۔ آسمان خاموش تھا۔ ہوا سانس لینا بھول گئی تھی۔ تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دُہرایا تھا۔ حامد میاں اس طرح اپنے پوتے کو گود میں لیے گاؤں کی زمین کا پیوند بن گئے تھے جیسے کربلا میں امام حسین اور ان کی گود میں علی اصغر نے اجل کو لبیک کہا تھا۔دونوں کے خون میں لت پت لاشے پڑے تھے اور تھوڑی ہی دُوری پر ساجد کا کمپیوٹر، نازو کی گڑیا، بہو کا سوٹ اور ایک دھوتی، ایک خوبصورت اور چھوٹی سی پیتل کی لٹیا پڑی تھی، جو میاں حامد بابا سکھ دیو کے گھر والوں کے لیے لائے تھے۔'

جدید ہندوستان کے تناظر میں آنند لہر کا ناول 'اگلی عید سے پہلے' بھی نہایت اہم ہے۔ یہ ناول سرزمینِ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے 1947ء سے کشمیر کو موضوع بنایا جہاں تمام مذاہب کے لوگ نہایت شیر و شکر ہوکر زندگی گزارتے تھے لیکن اس کے بعد بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حالات نے تمام تر رویوں اور عمل میں زہر گھول دیا ہے۔ جگن ناتھ آزاد اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

'آنند لہر صاحب کا زیر نظر ناول ‘اگلی عید سے پہلے’ سرزمینِ کشمیر کی ایک درد بھری داستاں ہے جو مصنف نے خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھا ہے۔ یہ داستان ہندوستان کی آزادی سے شروع ہوکر آج یعنی 1996ء تک پہنچتی ہے۔ سرزمینِ کشمیر کی یہ درد بھری روداد جو نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے، ایک ایسی روداد ہے جس میں روشنی اور اندھیرا ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کہیں کہیں متصادم بھی ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً کہیں اندھیرا فتح یاب ہوتا ہے اور کہیں روشنی۔ لیکن انجام کار روشنی ہی کامران و نصرت یاب ہوتی ہے جس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نصف صدی کا یہ سارا سفر ناول نگار کے اپنے دل کی تجلی سے جگمگا رہا ہے۔ ناول نگار نہ قنوطی (pessimist) ہے نہ رجائی (optimist) بلکہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ دنیا سعیِ انسانی کے ذریعے بہتر ہوسکتی ہے یعنی اصلاح کا قائل (meliorist) ہے۔

'بنی نوع انسان سے محبت اور بالخصوص سرزمینِ کشمیر سے محبت ناول نگار کے رگ و پے میں رچی بسی ہوئی ہے اور قاری کو یہ ناول کے شروع ہی میں نظر آجاتی ہے۔ جہاں موضوعی اندازِ بیان سے گریز مصنف کی دیانت پر دال ہے وہیں اس ناول کی ایک نمایاں خوبی مصنف کا معروضی اندازِ بیان بھی ہے جسے مصنف نے کہیں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ خواہ وہ کشمیر سے لوگوں کی ہجرتِ مکانی کا بیان ہو یا کسی فرد سے پولیس میں بھرتی کے لیے 10 ہزار کی رشوت طلب کی گئی ہو یا عمال حکومت کے مظالم کا ذکر ہو۔'

اس سلسلے میں علامہ راشد الخیری کے افسانوں کا مجموعہ ‘گلدستہ عید‘ بھی نہایت اہم ہے جس سے اس دن کی اہمیت اور اس کی مابعد الطبیعیاتی جہت کافی نمایاں ہوجاتی ہے۔ انہی میں ایک افسانہ ‘عید کا چاند میرے گھر نمودار ہوا’ انسانی محبت اور تعلق کی عمدہ مثال پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کہانی کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ عید اسی کی ہوتی ہے جن کے ساتھ ان کے اپنے ہوتے ہیں کیونکہ اپنوں سے جو تعلق قائم ہوتا ہے وہ مہر و محبت کے ساتھ وفاداری کا بھی تقاضا کرتا ہے اور اس افسانے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ:

'رحمٰن نامی ایک شخص بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے اور اس کی 2 بیویاں ہیں۔ پہلی بیوی سے وہ انتہا درجے تک نفرت کرتا ہے جبکہ دوسری بیوی اس کے دل کے قریب ہے لیکن وہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ جھگڑالو اور نک چڑھی ہے۔ ایک دن رحمٰن کی طبعیت کچھ بہل جاتی ہے تو وہ بستر سے اٹھ کر گھر کے دروازے تک آتا ہے تو کیا دیکھتا کہ ڈاک میں 2 خطوط پڑے ہو ئے ہیں۔ چھوٹی بیوی نے اپنی بہن کو خط لکھا کہ میری تو زندگی برباد ہوگئی اور ایک بیمار آدمی سے شادی کرلی کاش میں کسی مالدار سے شادی کرلیتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ یہ خط پڑھتے ہی رحمٰن چکرا کر گر جاتا ہے اور جی میں آتا ہے کہ پہلی بیوی کا خط بھی پھاڑ کر پھینک دے مگر جی میں کچھ سوچ کر اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو اس کی آنکھیں فرط جذبات سے لبریز ہوجاتی ہیں اور اسے اپنی پہلی بیوی کی وفاداری اور تعلق پر یقین ہوجاتا ہے۔'

راشد الخیری کی کہانیوں میں مسلمان عورتوں کا کردار ملی اور شعوری لحاظ سے کافی توانا دکھائی دیتا ہے اور اس لحاظ سے افسانہ 'ماما ترکن' میں بھی ترک عورتوں کی اسلام سے وابستگی کو پیش کیا گیا ہے۔

ماما ترکن جو ہندوستان کے امیر گھر میں ملازمت کرتی ہے اس کی داستان بیان کی گئی ہے جو قسطنطنیہ سے 25 کوس دُور مقام صفرجہ میں رہتی تھی۔ اس ماما کے خاندان والوں کو بلغاری افواج نے ایدڑیا نوپل کی فتح کے وقت قتل کردیا تھا۔ یہ کہانی عید کے موقعے پر لکھی گئی ہے اس لیے اس عورت کو اپنے خاندان والوں سے بچھڑ جانے کا غم دوگنا ہو ر کہانی کا حصہ بنتا ہے۔ وہ عورت کہتی ہے:

'آج برس کا برس دن ہے دنیا بھر کے مسلمان خوشیاں منا رہے ہیں خدا سب کی مامتا ٹھنڈی رکھے۔ میں نے آنسوؤں کے دو قطرے اپنے لعلوں کو عیدی دی۔ بیگم جو مال خدا کی راہ میں لٹا چکی اب اس کا ملال کیا۔'

مشرقی روایت خصوصاً عید کی تقریب میں یہ خصوصی التزام کیا جاتا ہے کہ اس موقعے پر یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ اس لحاظ سے اگر ایک نگاہ اردو ادب پر ڈالی جائے تو عید کے موقعے پر لکھی گئی کہانیوں اور نظموں کے بیشتر موضوعات غریبوں اور مسکینوں کی داد رسی کی جانب مائل کرتے ہیں۔ مثلاً شفیع الدین نیر کی کہانی ’عید کے کھلونے’ میں جہاں ایک خاندان کی خوشی کو دکھایا گیا ہے وہیں ایک غریب خاندان کی حسرت بھری داستان بھی بیان کی گئی ہے۔

اسی طرح مائل خیر آبادی کی کہانی ‘عید کا جوڑا’ بھی انہی کیفیات کا آئینہ دار ہے۔ اس کہانی میں دل بجھ گیا ہے پر حیات باقی ہے۔

عید الاضحٰی کی مناسبت سے اردو زبان و ادب میں ان کہانیوں کے علاوہ عید پر بیاضیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں محبوب کو اچھے اور عمدہ اشعار اس موقعے کی مناسبت سے بھیجے جاتے تھے۔ کچھ دہائیوں قبل عید کارڈ دیے جانے کا رجحان بھی موجود تھا جو انسانی تعلق اور اس میں پوشیدہ مہر و محبت کو ظاہر کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔

بہرحال ہلال عید کی جھلک دیکھ کر اہلِ عالم کے چہرے چمک اٹھتے ہیں۔ سب دوست احباب یار و آشنا خوشی مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں۔ ہم بھی اس موقعے کی مناسبت سے یہی کہیں گے کہ انسانوں کے درمیان رشتہ الفت مستحکم ہو اور جو فاصلے حائل ہوگئے ہیں وہ ختم ہوجائیں۔

عید ہمارے لیے ہم سب کے لیے نہایت مسرت افزا اور فرحت افزا ہو۔ رنج و محن، حسرت ویاس ہر ایک دل سے دُور ہو، دل مضبوط ہو اور نغمات سے سرشار ہو۔

کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی
قیمت دید رخ کی ہم نقد جاں لگاتے
بازار ناز لگتا دل کی خرید ہوتی
کچھ اپنی بات کہتےکچھ میرا حال سنتے
نازو نیاز کی یوں گفت وشنید ہوتی

ڈاکٹر خالد امین

لکھاری جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ایک تحقیقی مجلے ششماہی تحصیل کے نائب مدیر بھی ہیں۔ پاکستان کے معروف مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔