چاغی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں پر بی این پی کا احتجاجاً قومی اسمبلی سے واک آؤٹ
بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی-ایم) کے اراکین نے چاغی میں مظاہرین پر سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے معاملے پر قومی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صوبے میں فوجی آپریشن جاری رہے تو پارٹی کے لیے حکومت کا حصہ بننا مشکل ہوجائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ بی این پی-مینگل کے آغا حسن بلوچ کی جانب سے اس وقت اٹھایا گیا جب اسپیکر راجا پرویز اشرف نے ارکان کو پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت دی۔
گزشتہ ہفتے حکومت بنانے کے بعد بظاہر کئی چیلنجز کا سامنا کرنے والی مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے ملک میں قبل از وقت انتخابات کا مشورہ دیا جو کہ ان کے بقول ملک کو خونریزی اور ممکنہ خانہ جنگی سے بچانے کا واحد راستہ ہے۔
آغا حسن بلوچ نے سب سے پہلے ایوان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’16 اپریل کو چاغی کے مقام پر ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جب سیکیورٹی فورسز نے نہتے اور مظلوم بلوچوں پر فائرنگ کی جس میں 6 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے‘۔
یہ بھی پڑھیں: چاغی: سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ڈرائیور کا مبینہ قتل، احتجاج کے دوران 4 مظاہرین زخمی
انہوں نے کہا کہ ’ہمیشہ کی طرح ماضی کا رویہ ترک نہیں کیا گیا، آج (پیر) ایک بار پھر پرامن معصوم بلوچ مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجے میں مزید ہلاکتیں ہوئیں‘۔
بی این پی مینگل کے رکن اسمبلی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچ عوام 1947 سے ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بن رہے ہیں اور آج بھی ایسا ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں سب سے سستی چیز بلوچ عوام کا خون ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بی این پی مینگل کے لیے بلوچ عوام ہر چیز سے زیادہ اہم ہیں۔
آغا حسن بلوچ نے پارٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ ایوان سے واک آؤٹ کرنے سے قبل کہا کہ سیکیورٹی فورسز کو بہت زیادہ اختیارات کیوں دیے گئے ہیں؟ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور واک آؤٹ کرتے ہیں، ان حالات میں ہم حکومت میں کیسے رہ سکتے ہیں؟
مزید پڑھیں: چاغی میں احتجاج کے دوران 7مظاہرین زخمی
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اسپیکر نے ایاز صادق اور بلوچستان کے کچھ دیگر ارکان اسمبلی کو بی این پی مینگل کے ارکان کو واپس لانے کے لیے بھیجا، لیکن غالباً اس وقت تک احتجاج کرنے والے ارکان پارلیمنٹ ہاؤس سے جاچکے تھے۔
بلوچستان میں جاری آپریشنز اور لاپتا افراد کا معاملہ بی این پی-مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے بھی ہفتہ کو اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران اٹھایا تھا، اختر مینگل نے وزیر اعظم سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ وہ لاپتا افراد کا مسئلہ عیدالفطر سے پہلے حل کر لیں جس میں صرف 2 ہفتے باقی ہیں۔
وزیر اعظم کی ایوان سے غیر موجودگی میں مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے احتجاج کرنے والے بی این پی مینگل کے ارکان اسمبلی کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ 1960 کی دہائی سے موجود ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں اور ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا جائز نہیں ہوگا، کسی کا نام لیے بغیر مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ادارہ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چاغی: 4 سال سے لاپتا شخص کی مدفون لاش برآمد
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو درپیش موجودہ صورتحال کی وجہ بالخصوص صوبے سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی اپنے مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے میں ناکامی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی اس سلسلے میں اپنا مناسب کردار ادا نہیں کر رہی اور صوبے میں بار بار وزرائے اعلیٰ کی تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اراکین اسمبلی خود کو عوامی نمائندے ثابت نہیں کر رہے۔
انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کو تبدیل کرکے اپنا وزیر اعلیٰ مقرر کرنا مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کی غلطی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ایک صوبے میں ایسی حکومت کا ہونا شرمناک ہے، اگر وہ مسلح افواج اور ایف سی کو واپس بیرکوں میں جاتے دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: بجلی کی معطلی کے خلاف احتجاج، مظاہرین نےتفتان ہائی وے بند کردیا
انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے ذاتی اور وقتی فوائد کے لیے اپنی جگہ ترک کی تو اس میں مسلح افواج کا کوئی قصور نہیں تھا، ہماری ذمہ داری ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کریں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے بی این پی-مینگل سے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو اپنے مسائل کے حل کے لیے آخری فورم سمجھتے ہوئے استعمال کریں اور اسے ترک نہ کریں۔
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی رکن اسمبلی روبینہ عرفان نے بھی اپنے صوبے کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں نوجوان بے روزگار ہیں۔
انہوں نے چاغی واقعے پر بھی تشویش ظاہر کی اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان کے لوگوں کو سڑکیں، بجلی اور دیگر سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔