دفتر خارجہ کی بھارت میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت
پاکستان نے بھارت کی مختلف ریاستوں میں انتہا پسند جنونی ہندو ہجوم کی جانب سے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور ٹارگٹ حملوں کی مہم کی شدید مذمت کی ہے۔
بھارتی دالحکومت نئی دہلی کے علاقے جہانگیر پور کی جامع مسجد میں مسلمان روزہ افطار کر رہے تھے کہ اس دوران زعفرانی رنگ کا جھنڈا لہرایا گیا اور توہین آمیز نعرے بازی، اشتعال انگیز موسیقی اور ہنومان شوبھا یاترا کے جلوس کے ذریعے ہتھیاروں کی نمائش کی گئی۔
مزید پڑھیں: امریکی رپورٹ میں بھارت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی نشاندہی
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بھارتی دارالحکومت میں اس طرح کا جنونی رویہ حالات کی سنگینی کو اور بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی منظور شدہ نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے نے فروری 2020 کے دہلی قتل عام کی ہولناک یادوں کو پھر سے تازہ کردیا ہے جس کا مقصد مسلم کمیونٹی کے ساتھ امتیازی اور غیر انسانی سلوک تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے بھارت کی کئی ریاستوں میں فسادات اور ہنگاموں کا سبب بننے والے رام نومی کے فسادات بھارت کے 'ہندو راشٹر' میں بدلتے ہوئے رجحان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ مسلمانوں کے مکانات، کاروبار اور دکانوں کو مسمار اور مدھیا پردیش اور گجرات میں مقامی حکام کی طرف سے مساجد کی توڑ پھوڑ کے دلخراش مناظر بھارتی ریاست اور معاشرے کی جڑوں میں ہندوتوا کے نظریے کو ظاہر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: نئی دہلی میں مذہبی تہوار کے موقع پر فرقہ ورانہ فسادات، 14 افراد گرفتار
انہوں نے کہا کہ بھارت میں ہندو برادری کے مذہبی جلوسوں کو فرقہ ورانہ منافرت اور مسلم مخالف تشدد کو ہوا دینے کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان پر پاکستان افسوس کا اظہار کرتا ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکام جو ظاہری طور پر خوف و ہراس پھیلانے میں ملوث تھے، انہوں نے ’مبینہ طور پر فساد میں ملوث افراد‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کے بہانے مسلمانوں کے خلاف ایک ٹھوس مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان، بھارتی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد اور دھمکیوں کے واقعات کی شفاف تحقیقات کرے اور مستقبل میں ایسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے قابل عمل کوششیں کرے۔
اس سلسلے میں عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور متعلقہ بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرائیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارتی پولیس نے نئی دہلی میں ایک ہندو مذہبی جلوس کے دوران ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے فسادات کے سلسلے میں 14 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
مزید پڑھیں: بھارت: مذہبی فسادات کے بعد کرفیو نافذ، اجتماع پر پابندی عائد
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق نئی دہلی کے مضافاتی علاقے جہانگیر پوری میں ایک تہوار کے موقع پر ہونے والی جھڑپوں کے دوران گزشتہ روز 6 پولیس افسران اور متعدد دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔
حالیہ ہفتوں میں ملک کے کئی حصوں میں مذہبی تہواروں اور جلوسوں کے دوران ہندو اکثریت اور مسلم اقلیتی کمیونٹیز کے درمیان مذہبی جھڑپوں کے واقعات پیش آئے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکمرانی نے حالیہ برسوں میں سخت گیر ہندو مذہبی گروہوں کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ اپنے عقائد کا دفاع کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں جبکہ ان کی پارٹی نے نریندر مودی کے دور حکومت میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافے کی تردید کی ہے۔
اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں بھی بھارت میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کو اجاگر کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: بی جے پی رہنما سے متعلق خبر دینے پر پولیس کا صحافی پر برہنہ کرکے تشدد
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ انہیں بھارت کے بعض حصوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بارے میں مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ’کچھ علاقوں میں مسلم برادری فرقہ ورانہ تشدد اور امتیازی سلوک کا شکار ہے، سال کے دوران مسلمان برداری کے جسمانی استحصال، تعصب، زبردستی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ گائے کی اسمگلنگ کے الزام پر تشدد جاری رہا‘۔