نقطہ نظر

شہشر: بہار کی آمد پر منایا جانے والا دلچسپ تہوار

جشن کے آغاز پر گاؤں کے لڑکے پرانے جوتے جمع کرتے ہیں اور انہیں رسی سے باندھ دیتے ہیں۔ پھر یہ جوتے باری باری ہر گھر لے جاتے ہیں۔

یورپ میں سردیوں کے اختتام کا اعلان کرنے کے لیے بہت سی رسومات ہیں۔ کہیں موسمِ سرما کی دیوی کے مجسمے کو غرق کیا جاتا ہے تو کہیں ڈبل روٹی کو پہاڑ کی چوٹی سے پھینکا جاتا ہے۔

یہ بات قابلِ فہم بھی ہے کہ پوری سردیوں میں برف سے ڈھکی سڑکوں پر سفر کرنے اور جسم سن کردینے والی ٹھنڈ برداشت کرنے کے بعد لوگوں کو اپنے غصے کا اظہار کرنے اور بہار کی آمد کا جشن منانے کے لیے کچھ تو چاہیے۔

اسی طرح 13 مارچ کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں کیرن، دواریاں اور وادی نیلم کے رہنے والے صدیوں پرانا شہشر تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار موسمِ سرما کی سختیوں کو برداشت کرنے کے بعد بہار کی آمد پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاوہ یہ تہوار لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں بھی منایا جاتا ہے۔

'شہشر' ایک کشمیری لفظ ہے جسے شدید سرد موسم کی وجہ سے رہائشیوں کو درپیش مشکلات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں برفانی طوفانوں کی وجہ سے اکثر سڑکیں بند ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے کسی ہنگامی صورتحال میں بازار یا اسپتال تک جانا مشکل ہوجاتا ہے۔

رواں سال شہشر منانے کے لیے پاک فوج اور نیلم گیسٹ ہاؤس ایسوسی ایشن کی جانب سے 3 روزہ شہشر میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس میلے میں شریک مقامی افراد اور سیاح گاؤں کے بچوں کے درمیان منعقد کیے گئے رسہ کشی، دوڑ اور کبڈی کے مقابلوں سے محظوظ ہوئے۔

نیلم گیسٹ ہاؤس ایسوسی ایشن کے صدر 40 سالہ راجا افتخار کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ سال کی نسبت رواں سال زیادہ لوگوں نے فیسٹیول میں شرکت کی ہے۔ شاید اس کی وجہ کورونا پابندیوں میں نرمی ہونا بھی ہے'۔

وادی نیلم کی ایک سیاسی شخصیت 46 سالہ راجا الیاس کئی سالوں سے یہ میلہ منعقد کررہے ہیں اور اس میں شرکت کررہے ہیں۔ ان کے مطابق لوگ اب آہستہ آہستہ اپنی ثقافت سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شہشر ہمارا ثقافتی تہوار ہے اور ثقافت کسی بھی خطے کی پہچان ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اسے نہیں مناتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہے۔ شاید اس کی ایک اور وجہ ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے کیونکہ موسمِ سرما اب اتنا زیادہ سخت نہیں ہوتا، اور اسی لیے بہار کی آمد کا جشن بھی اتنے جوش و خروش سے نہیں منایا جاتا'۔

جشن کے آغاز پر گاؤں کے لڑکے اپنے گھروں سے پرانے جوتے جمع کرتے ہیں اور انہیں رسی سے ایک ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ پھر یہ جوتے باری باری ہر گھر لے جاتے ہیں۔ اس دوران بچے یہ نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں کہ موسمِ سرما ختم ہوگیا اور بہار آگئی۔

جب گھروں کے مکین گھر سے باہر آتے ہیں تو انہیں بچوں کی طرف سے بہار کے پھول دیے جاتے ہیں اور بدلے میں وہ ایک پرانا جوتا بچوں کے حوالے کرتے ہیں جسے اسی رسی میں پِرو دیا جاتا ہے۔ پھولوں کے علاوہ لڑکے گاؤں والوں کو ایک خاص طرح کی مشروم بھی دیتے ہیں جو وہاں قدرتی طور پر اگتی ہے اور اسے کاشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس مشروم کو بہار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

ان لڑکوں کو ہر گھر سے کھانے کی اشیا جیسے چاول، چینی، گھی اور کچھ رقم بھی دی جاتی ہے۔ لڑکوں کو پرانے جوتے کے ساتھ کھانے کی کوئی چیز یا رقم نہ دینا بُرا شگون سمجھا جاتا ہے۔

پرانا جوتا دینا دراصل سردیوں کی مشکلات سے چھٹکارا پانے کی علامت ہے۔ جوتا لڑکوں کے حوالے کرنے سے قبل اسے گھر کے چاروں کونوں میں پھرایا جاتا ہے تاکہ گھر سے کسی بُری نظر یا بدقسمتی کو بھگایا جاسکے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ان پرانے جوتوں کو گھروں سے دُور پھینکنے کا مطلب تمام دکھ، درد، پریشانیوں اور منفی چیزوں کو زندگی سے نکال دینا ہے۔

گاؤں والوں سے لیے گئے پرانے جوتے گاؤں میں ایک مخصوص خشک جگہ پر رکھے جاتے ہیں جسے شہشر مورا کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر بارش یا کسی اور وجہ سے جوتے گیلے ہوگئے تو اس کا مطلب ہے کہ بہار کے موسم میں بھی بارش اور سخت موسم کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔

اس میلے میں شریک 13 سالہ حسنین نے کہا کہ 'ہم ہر سال اس تہوار کا انتظار کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مزا تو اس نعرے میں آتا ہے جسے لگاتے ہوئے ہم لوگوں کے گھروں تک جاتے ہیں۔ سردیوں میں ہم عموماً گھروں میں ہی رہتے ہیں اور سخت موسم کی وجہ سے ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی، اس وجہ سے بہار کی آمد ہمارے لیے کسی تہوار سے کم نہیں ہوتی۔ بہار کا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اپنے دوستوں سے مل سکتے ہیں اور بھاگ دوڑ کرسکتے ہیں'۔

ایک بار جب جوتے جمع کرکے مخصوص مقام پر رکھ دیے جاتے ہیں تو پھر یہ لڑکے مختلف مقابلوں اور دوڑ میں حصہ لیتے ہیں۔ جو لڑکا دوڑ جیت جاتا ہے اسے شہشر کا باپ اور دوڑ میں آخر آنے والے لڑکے کو شہشر کی ماں کہا جاتا ہے۔ پھر ان لڑکوں کو سال بھر اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

جشن کے اختتام پر تمام گھروں سے جمع کیے گئے چاول، گھی اور چینی کو اکٹھا کرکے یہ لڑکے چاول کا ایک میٹھا پکوان تیار کرتے ہیں جو سب کھاتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر ثقافتوں میں بھی پیروں اور جوتوں کو اچھی اور بُری قسمت سے جوڑا جاتا ہے۔ جاپان میں گھر میں داخل ہونے سے قبل جوتے اتارنا احترام اور تکریم کی علامت ہے لیکن روایتی طور پر دیکھا جائے تو اسکینڈینیویا سے ہوائی تک کئی جگہ اس پر عمل کیا جاتا ہے۔

روایتی فینگ شوئی کے مطابق جوتوں اور چپلوں کو گھر کے دروازے کے باہر نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ چی (توانائی) ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہے، وہ ان جوتوں میں بسی بُو کو ساتھ لے کر گھر میں داخل ہوتی ہے اور بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ جاپانی گھروں میں اسے روکنے کے لیے فرش کے کنارے کو اونچا بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح جوتے رکھنے کے ریک کو بھی دولت اور خوش قسمتی سے جوڑا جاتا ہے۔

چاہے یہ جوتوں، مشروم اور یا پھولوں سے منسوب ہوں لیکن شہشر جیسے تہوار معاشروں کے اندر سماجی ہم آہنگی کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ثقافتی و علاقائی تہوار لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے ہیں۔ ان تہواروں میں بزرگ اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو نوجوان مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔


یہ مضمون 17 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ساجد میر

لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔