کراچی کی گرین لائن بس منزل نہیں، منزل کی جانب اٹھتا پہلا قدم ہے
یہ فروری کا اواخر تھا اور کراچی شہر میں موسمِ سرما اپنے اختتام پر تھا۔ قائدِاعظم کے مزار پر ہونے والی سیاسی ریلی کی وجہ سے اطراف میں ٹریفک جام تھا۔ میرا رکشے والا شاہراہِ قائدین پر نورانی کباب ہاؤس کے مقام پر لگائی گئی عارضی رکاوٹوں سے آگے نہ جا سکا۔
وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے قائم ہونے والے بس سسٹم گرین لائن کا سب سے قریبی اسٹیشن نمائش چورنگی کا تھا جو وہاں سے تقریباً ایک میل دُور تھا۔ تیز دھوپ اور تارکول سے منعکس ہونے والی حرارت نے اس مختصر سے پیدل سفر کو تکلیف دہ بنا دیا تھا۔
میں اس بات پر غصہ کرتے ہوئے چل پڑا کہ کس طرح منتخب یا غیر منتخب طاقتور حکام یونہی سڑکیں بند کردیتے ہیں اور شہریوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ میں راستے میں سوچ رہا تھا کہ کیا میٹرو بس کا اسٹیشن کھلا بھی ہوگا؟ کہیں ریلی کی وجہ سے گرین لائن تو بند نہیں کردی گئی ہوگی؟
میرے پاس یہ جاننے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ کراچی اس طرح کا فعال شہر نہیں ہے جہاں کسی چیز کی پیشگوئی کی جاسکے۔ کراچی میں گزشتہ 2 دہائیوں سے کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ پراجیکٹ شروع ہی نہیں ہوا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں، تو مجھے یہ جاننے کے لیے نمائش تک پیدل ہی جانا تھا۔
کراچی کی حالیہ تاریخ میں گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (بی آر ٹی ایس) ایک اہم موڑ ہے۔ اب تک یہ دنیا کا وہ واحد میگا شہر تھا جہاں پبلک ماس ٹرانزٹ کا نظام موجود نہیں تھا۔ کراچی 2 دہائیوں تک اس اہم انفرااسٹرکچر سے محروم رہا۔ گرین لائن کے آغاز کے ساتھ کراچی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
گرین لائن بس سروس کا آغاز کسی حد تک دھوم دھام لیکن بہت زیادہ گھبراہٹ کے ساتھ ہوا تھا کیونکہ اس شہر میں ہمیں اچھی چیزوں کی عادت نہیں ہے۔ یہاں ماضی میں بھی ماس ٹرانزٹ کے کئی منصوبے شروع ہوئے جو یا تو مکمل نہ ہوسکے یا پھر اپنے آغاز کے فوری بعد ہی ناکام ہوگئے۔ خود گرین لائن منصوبہ بھی مرکز اور صوبے کے درمیان سیاسی کشمکش کی وجہ سے برسوں تک تاخیر کا شکار ہوئی۔ پھر یہ منصوبہ اتنا اچھا تھا کہ اس پر یقین کرنا مشکل تھا، اسی وجہ سے اس کے آغاز پر ہر کسی نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔
نمائش پر بہت افراتفری کی صورتحال تھی اور بڑی تعداد میں میڈیا اور پولیس موجود تھی۔ دُور سے سیاسی ترانوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود اسٹیشن کو کھلا دیکھ کر میں حیران ہوا۔ غیر یقینی کے عالم میں زیرِ زمین اسٹیشن میں گیا، اپنے کراچی بریز کارڈ میں رقم ڈلوائی، اسے استعمال کرتے ہوئے برقی دروازے سے گزرا اور بس میں سوار ہوگیا۔
بس میں گنتی کے ہی مسافر موجود تھے۔ جوں ہی بس گرومندر کی طرف جانے کے لیے انڈرپاس سے نکلی تو وہ دُور سے آنے والی آواز مدھم تقریر میں بدل گئی۔ وہ ریلی دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اسلام آباد تک مارچ کا آغاز تھا، میرا خیال تھا کہ یہ دوپہر میں شروع نہیں ہوگی۔
جیسے ہی بس فلائی اوور پر چڑھنے لگی تو مقرر کی آواز مزید صاف ہوتی گئی۔ مجھے لگا کہ شاید وہ لوگوں کو جمع کرنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی پرانی تقاریر چلا رہے ہیں۔ بس مزید اونچائی پر پہنچی اور ہم نیو ایم اے جناح روڈ پر پہنچے تو مجھے لگا کہ میں نے کوئی جانی پہچانی صورت دیکھی ہے۔
ہم سے صرف 50 گز دُور بلاول بھٹو زرداری کھڑے پُرجوش تقریر کررہے تھے اور ان کی پیٹھ بس کی جانب تھی۔ یہ منظر اتنا ہی غیر حقیقی سا لگ رہا تھا جیسے ویڈیوز میں تحریک لبیک کے دھرنوں کے دوران اوپر سے گزرتی اورنج لائن ٹرین نظر آتی ہے۔
وہ غیر متوقع لمحہ دراصل اچھے پبلک انفرااسٹرکچر کی طاقت کا مظہر تھا۔ یہ سیاسی شخصیات، انا اور واقعات سے بالاتر ہوسکتا ہے جو معمول کے مطابق ہمارے شہروں اور ہماری زندگیوں کو غیر فعال بنا دیتے ہیں۔ اگر ان پر توجہ دی جائے تو یہ ہمارے انتہائی غیر مساوی معاشرے میں مساوات کا سبب ثابت ہوسکتا ہے۔
میں اکیلا نہیں تھا جسے اس منظر پر یقین نہیں آرہا تھا۔ بس میں بیٹھا ایک اور شخص فون پر کسی کو قائل کررہا تھا کہ اگر وہ گرین لائن میں بیٹھے تو وہ ناظم آباد تک پہنچ سکتا ہے۔ ہاں، نمائش پر ایک ریلی تھی، ہاں، لیکن بس پھر بھی چل رہی ہے۔ کیسے؟ اس کا ٹریک الگ ہے۔ میں فون پر موجود شخص کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا کیونکہ یہ کسی انہونی سے کم نہیں ہے۔
1990ء کی دہائی کے آغاز میں اور خاص طور پر جنرل مشرف کے دور میں کراچی کو نجی سفری ضروریات کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔ یہاں اربوں روپے سڑکوں، ایکسپریس وے، انڈر پاس، فلائی اوور اور سگنل فری کوریڈورز پر خرچ کیے گئے تاکہ گاڑیاں (اور پھر موٹر سائیکلیں) آسانی سے شہر میں چل سکیں۔
لیکن اس کے برعکس ہمیں زیادہ بھیڑ، ٹریفک جام اور طویل سفری اوقات دیکھنے کو ملے۔ اس کے علاوہ شہر کے معیارِ زندگی اور شہریوں کی پیداواری صلاحیتوں میں مسلسل گراوٹ آئی۔ یہاں میں مشہور اربنسٹ جین جیکبز کا ایک جملہ نقل کروں گا کہ ’یہ شہروں کی تعمیرِ نو نہیں بلکہ ان کی تباہی ہے‘۔
تو کیا گرین لائن اس تباہی کو درست کرسکے گی؟ کیا یہ کراچی کو رہنے کے قابل اور خوشگوار شہر بناسکے گی؟ شاید نہیں۔ صرف گرین لائن کے بل بوتے پر فوری طور پر تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کراچی میں تقریباً 10 ہزار کلومیٹر طویل سڑکوں کا جال ہے اور یہاں کے لاکھوں شہریوں نے اپنی زندگیوں کو موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے گرد ڈھال لیا ہے۔ محفوظ سفری سہولیات کی کمی کی وجہ سے خواتین کو اکثر کام کے بھی کم ہی مواقع ملے ہیں۔ یہ صورتحال بس ایک 23 کلو میٹر کے بس کوریڈور کے بننے سے تبدیل نہیں ہوگی چاہے وہ کتنا ہی خوبصورت اور آرامدہ کیوں نہ ہو۔
تیزی سے ایک ٹرانزٹ نیٹ ورک کی تعمیر کے بغیر لوگوں کی نقل و حرکت اور رویوں میں کم ہی تبدیلی آئے گی، ایک ایسا نیٹ ورک جو شہر کے اہم علاقوں، خاص طور پر گنجان آبادیوں، بازاروں اور تجارتی مراکز، بندرگاہوں اور صنعتی علاقوں کا احاطہ کرتا ہو۔
ایسا ہونا مشکل لگتا ہے لیکن جب آپ خود گرین لائن پر سفر کرتے ہیں تو آپ کو کچھ ایسے اشارے ضرور ملتے ہیں جن سے امید بندھتی ہے۔
گرین لائن فعال ہونے کے پہلے ماہ کے دوران 10 لاکھ سے زائد مسافروں نے اس پر سفر کیا اور اس کے بعد سے یہ تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ موجودہ بسوں اور کوچز کے مقابلے میں گرین لائن کے محفوظ اور آرامدہ سفر کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔
اس کا کرایہ 15 روپے سے 55 روپے تک ہے اور خصوصی راستے کا مطلب یہ ہے کہ بسیں ایک مقررہ شیڈول کے مطابق چل سکتی ہیں اور ٹریفک سے اس شیڈول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمام 80 بسوں کو 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے ایک حصہ خواتین، دوسرا حصہ فیملیز اور تیسرا حصہ مردوں کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ یوں موجودہ بسوں کی نسبت گرین لائن میں خواتین کے لیے زیادہ جگہ موجود ہے۔ اس وجہ سے آپ کو گرین لائن میں کافی خواتین نظر آئیں گی جو یا تو اکیلی ہوں گی یا پھر اپنے بچوں کے ساتھ۔
باوردی اسٹاف کی موجودگی آپ کو حفاظت کا احساس دلاتی ہے۔ اگرچہ وہ بہت زیادہ مسلح تو نہیں تھے لیکن پھر بھی مجھے اپنا فون نکال کر اسٹینڈ گلاس سے بنے اسٹیشنوں کی تصویریں لینے میں کوئی ڈر محسوس نہیں ہوا۔
لیکن یہ ہماری منزل نہیں ہے۔ یہ تو کراچی کو رہنے کے قابل شہر بنانے کی کوششوں کا محض آغاز ہے جس کا انتظار ایک عرصے سے کیا جارہا تھا۔ ابھی تو خود گرین لائن کو بھی مکمل ہونا ہے۔ اکثر اسٹیشن ابھی بھی نامکمل ہیں اور صرف کچھ پر ہی لفٹ اور برقی سیڑھیاں کام کررہی ہیں۔
نمائش کے جنوب میں بندر روڈ کے 3 اسٹیشن ابھی تعمیر ہونے ہیں۔ ان کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد صدر اور اطراف کے مسافر بھی اس کا استعمال کرنے لگیں گے جس کی وجہ سے مسافروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگرچہ گرین لائن کی بسیں صاف ستھری ہیں لیکن اسٹیشنوں کی صفائی ستھرائی پر مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
سرجانی سے نمائش تک سفر کے لیے 55 منٹ کا وقت بہت زیادہ اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے پاس کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ اگر اس کوریڈور کے ساتھ ایک ایکسپریس سروس بھی شروع ہوجائے تو یہ وقت مزید کم ہوسکتا ہے۔ ہر اسٹیشن کے اطراف روشنی اور سجاوٹ کے بہتر انتظامات زیادہ سے زیادہ مسافروں کو اپنی جانب راغب کرسکتے ہیں اس کے علاوہ اس کوریڈور کے ساتھ محلّوں کو بھی فخر کا احساس ہوگا۔
اگرچہ ریڈ لائن پر کام شروع ہوچکا ہے لیکن صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ اورنج لائن کا کام مکمل کرنے اور ییلو لائن پر کام کے آغاز میں تیزی دکھائیں۔ کیونکہ تیل کی بڑھتی قیمتوں اور روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کے پیش نظر پبلک ٹرانسپورٹ اب صرف بہتر پالیسی انتخاب نہیں بلکہ یہ شہریوں کو درآمدی مہنگائی سے بچانے کا واحد حل ہے۔ شہری جب بھی پیٹرول پمپ پر اپنی موٹر سائیکل یا گاڑی میں پیٹرول ڈلواتے ہیں تو انہیں اس درآمدی مہنگائی کا مزہ چکھنا پڑتا ہے۔
تمام بی آر ٹی لائنز کی مشترکہ سبسڈی بھی اربوں روپے کی اس حکومتی سبسڈی کے آگے کچھ نہیں ہے جو اس وقت ایندھن پر دی جارہی ہے، اور پھر اس سبسڈی سے امیر بھی فائدہ اٹھارہے ہیں۔
جیسے جیسے یہ کوریڈور تعمیر ہونے لگیں گے لوگوں کی رہائش اور کاروبار بھی ان کوریڈور اور خاص طور پر اسٹیشنوں کے قریب آنے لگیں گے۔ آپ کو گرین لائن کے اطراف یہ نظر بھی آئے گا۔ اب تو اپارٹمنٹس کے اشتہاروں میں بھی اسٹیشن سے ان کے فاصلے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ سفری ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہونے والی ترقی اگر مکمل منصوبہ بندی اور بہتر انتظام کے ساتھ کی جائے تو یہ شہر کو تبدیل کرسکتی ہے۔ ہمیں منصوبہ بندی کے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہیے۔
گرین لائن میں سب سے اچھا نظارہ اپنے والدین کے ساتھ آنے والے بچے ہوتے ہیں۔ وہ ان بسوں کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ شاید ان بسوں کی یاد بھی ان کے ذہنوں میں ویسے ہی باقی رہے گی جیسے کہ ٹرام اور سرکلر ریلوے کی یاد ہمارے والدین کے ذہنوں میں موجود ہے۔
ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان بچوں اور کراچی کی آنے والی نسلوں کے لیے یہ صرف ایک یاد ہی نہ بن جائے۔
یہ مضمون 10 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
لکھاری ایک ڈیزائن ریسرچر اور اسٹریٹجسٹ ہیں جو اربن ازم، فنانس اور تعلیم کے شعبوں میں کام کررہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔